Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی فضائی حملوں کے ردعمل میں شہروں کو نشانہ بنا رہے ہیں: طالبان

طالبان نے امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت کو شکست دینے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
افغان طالبان نے امریکی فوج کے فضائی حملوں کے جواب میں اپنی حکمت عملی بدلتے ہوئے دیہی علاقوں کی بجائے صوبائی شہروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق تین طالبان کمانڈروں نے اس نئی حکمت عملی کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔
20 برس جاری رہنے والے اس تنازعے کے بعد غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی طالبان نے امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت کو شکست دینے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
ایک امریکی کمانڈر نے بتایا کہ امریکہ نے طالبان کے حملوں کو روکنے کے لیے گذشتہ ماہ اپنے فضائی حملوں میں اضافہ کیا ہے جبکہ طالبان نے امریکہ کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔
اس وقت ایران کی ساتھ متصل مغربی سرحد کے قریب واقع شہر ہرات، ہلمند صوبے کے دارالحکومت لشکرگاہ اور جنوب میں واقع قندھار شہر میں شدید لڑائی جاری ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان تین طالبان کمانڈروں نے روئٹرز کو بتایا کہ ان کی توجہ ہرات اور قندھار پر قبضہ کرنے پر مرکوز ہے جبکہ لشکرگاہ بھی ان کی نظروں میں ہے۔

اس وقت ہرات، لشکرگاہ اور قندھار میں شدید لڑائی جاری ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان میں ایک کمانڈر جس کا تعلق قندھار سے ہے، نے ایک عسکری لیڈر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’ملا یعقوب کہتے ہیں کہ جب امریکی فوج نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا تو پھر طالبان کو کیونکر معاہدے کی پاسداری کا پابند بنایا جا سکتا ہے؟‘
طالبان کے ایک ترجمان نے تبصرے کے لیے رابطے پر کوئی جواب نہیں دیا تاہم طالبان کے مذاکرات کار سہیل شاہین نے روئٹرز کو بتایا کہ طالبان شہروں کی بجائے دیہی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے اور وہاں اسلامی شریعت نافذ کرنے کی اپنی پالیسی پر کاربند ہیں۔
طالبان نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ منافع بخش سرحدی گزرگاہوں اور وسیع دیہی علاقوں پر توجہ دیں گے لیکن اس دوران انہوں نے متعدد بار صوبائی دارالحکومتوں کا گھیراؤ کیا اور ان میں داخل ہوئے۔
خیال رہے کہ رواں برس اپریل میں امریکی صدر جوبائیڈن کے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد سے طالبان بڑے پیمانے پر ملک گیر حملے کر رہے ہیں جس کے بعد حکام کا کہنا ہے کہ دوحہ امن مذکرات میں ٹھوس پیش رفت کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔

سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ طالبان شہروں کی بجائے دیہی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے اور وہاں اسلامی شریعت نافذ کرنے کی اپنی پالیسی پر کاربند ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ قندھار اور ہرات آبادی کے لحاظ سے افغانستان کے دوسرے اور تیسرے سب سے بڑے شہر ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان کا چلے جانا حکومت کے لیے بڑا دھچکا ہو گیا اور یہ طالبان کے حق میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔
طالبان کے متعلق امور پر گہری نگاہ رکھنے والے ایک ایشیائی سفیر نے بتایا کہ ’قندھار پر قبضہ طالبان کے لیے بہت معنیٰ رکھتا ہے۔ یہ طالبان کا دارالحکومت تھا، اس پر قبضہ طالبان کے حوصلوں کو بڑھائے گا، یہ وہ چیز ہے جس کی ان کے ہاں بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کے لیے وہ بین الاقوامی ناراضگی کی بھی پروا نہیں کریں گے۔‘

شیئر: