Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے نئے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی نے حلف اٹھا لیا

نو منتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ثقافتی کالی پگڑی پہن کر حلف اٹھایا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ساتھی ابراہیم رئیسی نے ملک کے نئے صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔ اس حوالے سے پارلیمان میں ہونے والی تقریب کے بعد ایران کی حکومت کے تمام شعبوں میں سخت گیر عناصر کے غلبے کا سلسلہ مکمل ہو گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ماضی میں عدالتی چیف رہنے والے ابراہیم رئیسی جو مغرب کے لیے اپنے عدم اعتماد کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور انہوں نے ایک کشیدہ وقت پر اقتدار سنبھالا ہے۔
تہران کا 2015 کا تاریخی جوہری معاہدہ بچانے کے لیے ایران کے امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات رکے ہوئے ہیں جبکہ امریکہ نے ایران پر پابندیاں بھی عائد کی ہوئی ہیں۔
جمعرات کو آدھے گھنٹے کی افتتاحی تقریر میں ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ ’پابندیاں ہٹائی جانی چاہییں، جو بھی سفاری منصوبہ اس ضمن میں مددگار ہو گا ہم اس کی حمایت کریں گے۔‘
ابراہیم رئیسی نے ثقافتی کالی پگڑی پہنے ہوئے حلف اٹھایا۔
اپنی تقریر میں انہوں ںے امریکی پابندیاں ہٹانے کی غرض سے سفارت کاری اپنانے اور ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر زور دیا۔
ہمسایہ ممالک کے بارے میں بات کرنے کا مقصد ایران کے سنی حریف سعودی عرب کا ڈھکا چھپا حوالہ دینا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ایران خطے میں اپنے دشمنوں کو جواب دینے کے لیے طاقت بڑھانا چاہتا ہے۔‘
یمن کے حوثی باغی اور لبنان کے حزب اللہ جیسی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں جہاں جہاں ظلم اور جبر ہوگا چاہے وہ یورپ، امریکہ، افریقہ، یمن، شام یا فلسطین میں ہو، ہم وہاں کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘

ابراہیم رئیسی ایران سے متعلق امریکی پابندیاں ہٹانے کے لیے مذاکرات کے حق میں ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے ان کی آواز جذبات سے مغلوب ہو کر بلند ہوئی تو تقریب کے شرکا نے اس میں اپنی آواز ملا کر یکجہتی کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انتخابات کا پیغام متکبر طاقتوں کے خلاف مزاحمت ہے۔‘
ابراہیم رئیسی نے ایک ایسے الیکشن میں اکثریتی ووٹوں سے فتح حاصل کی، جس میں تاریخ کا کم ترین ٹرن آؤٹ رہا۔
60 سالہ ابراہیم رئیسی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم انہوں نے سخت گیر بیانیے کو سامنے رکھتے ہوئے میزائلز کو بڑھانے اور علاقائی ملیشیا کو محدود کرنے پر مذاکرات کے امکانات سے انکار کیا ہے۔

شیئر: