Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بیٹی ہونے میں کیا برائی ہے‘ ٹوئٹر پر لاہور واقعے پر شدید غم و غصہ

عائشہ اکرم کا کہنا ہے کہ ’وہ 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک میں یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنانے کے لیے گئی تھیں‘ (فائل فوٹو: آئی سٹاک)
منگل کے روز شاہدرہ لاہور کی رہائشی عائشہ اکرم نے تھانہ لاری اڈہ میں درخواست دی کہ ’وہ 14 اگست کو شام ساڑھے چھ بجے اپنے ساتھی کارکن عامر سہیل، کیمرہ مین صدام حسین اور دیگر چار ساتھیوں کے ہمراہ گریٹر اقبال پارک میں مینار کے قریب یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنا رہی تھیں کہ اچانک وہاں موجود تین چار سو افراد نے ان پر حملہ کردیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ’عائشہ اکرم کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہجوم سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہیں تاہم گارڈ کی جانب سے جنگلے کا دروازہ کھولے جانے کے بعد وہ اندر چلے گئے۔
ایف آئی آر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’اس کے بعد بھی ہجوم جنگلے پھلانگتا ہوا ان کے پیچھے آیا، اس میں شامل لوگوں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی، کپڑے پھاڑ دیے اور ان کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کرتے رہے۔
اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی جس کے بعد صارفین کی جانب سے بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔
ٹوئٹر صارف ارم زعیم کہتی ہیں کہ ’مجھے تو شک ہے کہ 400 آدمی گھروں میں بھی یہی کرتے ہوں گے، یہ عورت کی عزت سے عاری درندے ہیں، یہ جانور ہیں، عورت کسی صورت محفوظ نہیں اس جنگل میں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی شکار نظر آئے اور اسے نوچ کھائیں۔‘
پاکستان کی معروف ادکارہ ماہرہ خان بھی اس واقعے کی مذمت کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ ایک ٹوئٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں نے ابھی کیا دیکھا ہے۔‘
’میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں اور اب دوبارہ کہہ رہی ہوں کہ ان مردوں کو مثالی سزا دی جائے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس واقعے کے بعد جاری ایک بیان میں کہا کہ ’مینار پاکستان پر ہجوم کا نوجوان لڑکی سے دست درازی اور زدوکوب کرنا ہر پاکستانی کے لیے باعث شرم اور ہمارے سماج کی پستی کو بیان کرتا ہے۔‘
’متاثرہ لڑکی کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے، پاکستانی خواتین خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کے تحفظ اور مساوی حقوق کو یقینی بنائیں۔‘
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بدھ کے روز ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں لڑکی اور اس کے ساتھیوں کو سینکڑوں لوگوں کے ہجوم کی جانب سے ہراساں کرنا انتہائی پریشان کن ہے۔
زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت میں جارہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’خواتین مخالف حالیہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بے چینی پھیلتی جارہی ہے۔‘
منگل کے روز ٹی وی اینکرپرسن اقرار الحسن ٹک ٹاکر عائشہ اکرم سے ملنے ان کے گھر پہنچے اور انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے عائشہ کے ساتھ ایک تصویر بھی شیئر کی۔
اقرار لکھتے ہیں کہ ’مینار پاکستان پر بھیڑیوں کا شکار عائشہ کے پاس رات کے اس پہر انہیں صرف یہ احساس دلانے پہنچا ہوں کہ انہوں نے جنسی حیوانوں کے خلاف ایف آئی آر کروا کر جس بہادری کا ثبوت دیا ہے اس پر انہیں سلام ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’معاف کیجیے گا لیکن خوش قسمت ہیں وہ جنہیں اس ملک میں خدا نے بیٹی نہیں دی۔‘
تاہم اینکرپرسن کی اس ٹویٹ کے بعد صارفین اور خصوصاً خواتین نے مزید غصے کا اظہار کیا۔
مریم نامی ایک صارف نے کہا کہ ’متاثرین کو پکڑ کے کیمرے کے سامنے بٹھا کر سوال پوچھنے اور فوٹو شوٹ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔‘
سمیرا ججا نے اقرار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اقرار تھوڑا رحم کرلیں ان پر، بے شک انہوں نے اجازت دی ہو اپنی تصویر لینے کی لیکن آپ یہ ٹویٹ بغیر تصویر کے بھی کرسکتے تھے۔‘
’بیٹی ہونے میں کیا برائی ہے؟ آپ اس میں مردوں کی مذمت کریں۔ افسوس ہورہا آپ کی سوچ پر۔‘
وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم
وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی کا کہنا ہے کہ ’عاشورہ کی ڈیوٹی کے باوجود پولیس واقعے کی ویڈیو کا تجزیہ اور سی سی ٹی وی ویڈیوز کی مدد سے ملزمان کو شناخت کرنے اور ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔‘

شیئر: