Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان سے ایران جانے والوں کی صحرا میں موت، بے گور و کفن لاشیں

’نامعلوم صحرا میں سنسان راستے پر جہاں سایہ تھا اور نہ ہی پانی، دور دور تک کوئی آبادی اور نہ ہی کسی ذی روح کا نام و نشان، انسانی سمگلر نے ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ گرمی اور بھوک و پیاس سے لڑتے ہوئے ہمارے تین ساتھیوں نے دم توڑ دیا۔ دو دن بعد وہاں سے گزرنے والی گاڑی میں سوار افراد ہماری جان نہ بچاتے تو ہمارا انجام بھی شاید مختلف نہ ہوتا۔‘
یہ کہانی ہے پنجاب کے ضلع بھکر کی تحصیل کلور کوٹ کے رہائشی 21 سالہ رانا محمد فیاض اور ان کے ساتھیوں کی جنہیں غیر قانونی طور پر پڑوسی ملک ایران جانے کی کوشش کے دوران انسانی سمگلروں کی بے رحمی کے باعث ایک دردناک اور دل دہلا دینے والے تجربے سے گزرنا پڑا۔
اس سفر کے دوران ان کے بہنوئی محمد سجاد، سجاد کے چچا زاد بھائی خلیق الرحمان اور بھانجے حافظ محمد بلال کی موت ہو گئی۔ ان میں سے صرف خلیق الرحمان کی لاش ہی واپس اپنے گھر پہنچ سکی۔ باقی دونوں کے لواحقین اب تک اپنے پیاروں کی لاشوں کی واپسی کے منتظر ہیں۔
لواحقین کے مطابق دونوں افراد کی لاشیں پاک ایران سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے تفتان اور نوکنڈی کے درمیان نامعلوم صحرائی مقام پر ہیں جہاں انسانی سمگلروں نے انہیں اضافی رقم نہ دینے پر گاڑی سے اتار کر بے یار و مدگار چھوڑ دیا تھا مگر انتظامیہ ان لاشوں کی تلاش اور واپسی میں ان کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔
چاغی کی ضلعی انتظامیہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے واقعہ کی تصدیق کی اور بتایا کہ ایک متاثرہ شخص کی لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی جبکہ دوسرے کی لاش امانتاً دفن کردی گئی اور تیسرے کی لاش سے متعلق اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
واقعہ میں زندہ بچ جانے والے رانا محمد فیاض نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ میں زندہ بچ گیا ہوں۔ موت کو بہت قریب سے دیکھا، ہم پر ایک قیامت گزری۔ گھر آنے کے بعد بھی دل دہلا دینے والے مناظر میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہے اور میں اب تک اس سفر کی دہشت سے نہیں نکل سکا ہوں۔‘
رانا محمد فیاض کے مطابق ’گجرانوالہ کے علاقے وزیر آباد میں رہنے والا میرا بہنوئی رانا محمد سجاد گذشتہ 11 سالوں سے ایران کے صوبے یزد کے شہر مرد آباد میں کپڑے اور شال بنانے والے کارخانے میں کام کرتا تھا۔ ویزے کے حصول میں مشکلات کے باعث ہر بار وہ غیر قانونی طور پر ہی ایران سے آتا اور جاتا تھا۔ چند ماہ چھٹیاں گزارنے کے بعد وہ دوبارہ یورپ جانا چاہتا تھا۔‘

ایف آئی اے کے ایک آفیسر نے بتایا کہ آہنی باڑ کے باوجود ہزاروں افراد ایران یا ترکی کی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

آگے کی کہانی محمد فیاض کی زبانی

’اگست کے شروع میں میرے بہنوئی رانا محمد سجاد نے لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ برف کے کارخانے میں کام کرنے کے بدلے مجھے ماہانہ صرف 15 ہزار روپے ملتے تھے جس سے گھر کا گزارہ مشکل تھا۔ والدین کی وفات کے بعد دو چھوٹی بہنوں کی کفالت اور شادی کی ذمہ داری بھی میرے سر پر تھی اس لیے میں نے بھی ایران جانے کا فیصلہ کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا ’منگل 3 اگست کو سجاد کے ساتھ اس کا بھانجا حافظ بلال، چچا زاد خلیق الرحمان، دوماموں زاد ابو بکر اور عثمان، ایک دور کا جاننے والا قیصر انصاری اور میں پنجاب کے علاقے خوشاب سے روانہ ہوئے اور اگلے دن کوئٹہ کے راستے تفتان پہنچے۔ تفتان میں سعید بلوچ نامی انسانی سمگلنگ ایجنٹ نے ہمیں ہوٹل میں ٹھہرایا اور اگلے دن یعنی جمعرات 5 اگست کی شام کو اپنے بھائی اور ایک پاؤں سے معذور ڈرائیور کے ساتھ منزل کی جانب روانہ کیا۔ گاڑی میں ہم سات جاننے والوں کے علاوہ 10 دیگر لوگ بھی تھے۔‘
ہم سرُخ رنگ کی پک اپ گاڑی کے پچھلے حصے میں ایک دوسرے سے چپک کر بڑے مشکل سے بیٹھے ہوئے تھے۔ سفر میں ہم ایک دوسرے سے ہنسی مذاق بھی کر رہے تھے مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ صرف چند گھنٹوں بعد ہی ہم پر قیامت گزرے گی۔

محمد فیاض کے مطابق ان کے بہنوئی اور ایجنٹ کے بھائی کا رقم پر تنازع ہوا۔ 

ایجنٹ کے بھائی اور سجاد کا شاید رقم پر کوئی مسئلہ ہوگیا تھا مگر وہ فارسی میں بات کر رہے تھے تو ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ چار سے پانچ گھنٹے سفر کرنے کے بعد رات 10 بجے گاڑی کے ڈرائیور اور ایجنٹ کے بھائی نے گاڑی روک کر تفتان اور نوکنڈی کے درمیان ہم 10 لوگوں کو ایسے ویران مقام پر چھوڑ دیا جہاں چاروں جانب صحرا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ باقی تین لوگ خوشاب اور فیصل آباد کے رہنے والے تھے جنہیں ہم نہیں جانتے تھے۔
سجاد نے ڈرائیور سے احتجاج کیا مگر اس نے کہا کہ وہ کچھ دیر میں واپس آئے گا۔ ہم نے رات تین بجے تک وہیں انتظار کیا اس کے بعد سجاد نے کہا کہ گاڑی واپس نہیں آئے گی اگر سورج نکل گیا تو اس دھوپ میں یہاں سے نکلنا مشکل ہوگا اور ہم بھوکے پیاسے مر جائیں گے اس لیے ہم نے نامعلوم سمت میں پیدل چلنا شروع کیا۔
ہم اگلے کئی گھنٹوں تک چلتے رہے مگر دور دور تک کسی آبادی اور سڑک کے کوئی آثار نظر آئے اور نہ ہی کوئی مدد ملی۔ دھوپ نکلی تو ہم نے دیکھا کہ میلوں دور تک ریت پھیلی تھی، تیز گرم دھوپ ہمارے جسم کو جھلسا رہی تھی، انسان تو کیا چرند پرند کا بھی نام و نشان نہیں تھا۔ تند و تیز ہوا کے ساتھ ریت اور مٹی اور دھول اٹھتی تو چلنا مزید مشکل ہو جاتا۔ ہمارے پاس ایک لیٹر والی پانی کی صرف ایک ایک یا دو دو بوتلیں تھیں۔ ہم اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی پیتے رہے۔
کچھ معلوم نہیں تھا کہ ہم کہاں ہیں۔ ریت اور مٹی پر گاڑیوں کے ٹائروں کے نشان نظر آ رہے تھے۔ یہ ایسا راستہ تھا جسے ڈرائیور بھی کئی بار بھول جاتا۔ انہوں نے راستہ پہچانے کے لیے بڑے پتھروں رنگ اور مختلف مقامات پر جلے ہوئے ٹائر رکھے ہوئے تھے۔
مسلسل پیدل چلنے اور گرمی کی وجہ سے میرے بہنوئی محمد سجاد کی طبیعت خراب ہوگئی۔ انہیں دل کی بیماری تھی اس سے پہلے بھی انہیں دل کا دورہ پڑچکا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ گرمی بھی بڑھتی گئی۔ ہم نے اپنا پانی بھی سجاد کو دیا مگر ان کی طبعیت نہیں سنبھل رہی تھی۔ ہم نے بمشکل 40، 45 کلومیٹر سفر طے کیا۔

ہر مہینے ہزاروں پاکستانی اور افغان باشندے غیر قانونی طور پر بلوچستان سے گزر کر ایران اور یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فوٹو: روئٹرز

اس کے بعد سجاد نے مزید پیدل چلنے سے انکار کر دیا تو سجاد کے چچا زاد خلیق الرحمان اور ماموں زاد ابوبکر نے ہمیں کہا کہ آپ ادھر ہی رہیں ہم جاکر موبائل سگنلز، کوئی مدد یا پھر راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ تقریباً ایک گھنٹے بعد واپس آ گئے اور کہا کہ کہیں بھی موبائل سگنلز نہیں مل رہے۔ دور ایک پہاڑی نظر آ رہی ہے وہاں تک جاتے ہیں شاید وہاں سے کوئی  قریبی آبادی نظر آ جائے۔ ہم جتنا پہاڑی کے قریب جا رہے تھے اتنا سفر کھٹن بنتا جا رہا تھا۔
سجاد کو ہم نے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا، پہلے ایک اسے اٹھاتا پھر دوسرا۔ ہمیں خود بھی بہت بھوک اور پیاس لگ رہی تھی۔ سجاد کو اٹھانا تو دور ہم سے خود نہیں چلا جا رہا تھا اس لیے پانچ لوگ مدد کی تلاش کے لیے آگے گئے۔ کچھ منٹ کے وقفے کے بعد سجاد کا بھانجا حافظ بلال بھی ان کے پیچھے بھاگا۔ مگر بعد میں آگے جانے والوں نے بتایا کہ بلال ان تک پہنچا ہی نہیں۔
میں، خلیق الرحمان اور محمد عثمان سجاد کے ساتھ رہ گئے۔ ہم ادھر ہی انتظار کرتے رہے۔ گرمی بہت زیادہ تھی جو پانی رہ گیا تھا ہم نے وہ سجاد کو پلا دیا اور کپڑا تھوڑا گیلا کرکے ان کے سر اور چہرے پر ڈال دیا تاکہ انہیں گرمی سے بچایا جاسکے مگر صبح دس بجے تک ان کی موت ہو گئی۔
گرمی، بھوک اور پیاس کی شدت سے طبیعت خراب ہونے کے باوجود ہم تینوں لاش کو اٹھا کر کافی دور تک چلے۔ آخر کار ہماری ہمت جواب دے گئی اور لاش کو وہیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے ساتھ تین بیگ تھے جس میں کپڑے، جوتے اور باقی سامان تھا۔ ہم نے شناختی کارڈ، موبائل، بٹو اور تینوں بیگ سجاد کی لاش کے ساتھ رکھ دیے تاکہ اگر کوئی گاڑی یا مدد مل گئی تو واپس آکر ان کی لاش ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔

ایک صحافی نے بتایا کہ فورسز سے بچنے کے لیے سمگلر ویران راستوں سے لوگوں کو لے جاتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا مگر آہستہ آہستہ ہم اپنے حواس کھونے لگے۔ دوپہر کا وقت تھا، تپتی دھوپ میں پانی کے بغیر ہم سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ درجہ حرارت 40 سینٹی گریڈ سے زائد تھا۔ چار پانچ کلومیٹر چلنے کے بعد ہم تینوں بے ہوش ہوگئے۔ جب آنکھ کھلتی تو صرف روشنی یا پھر اندھیرا نظر آتا۔ ہماری آنکھیں، ناک اور منہ ریت سے بھر گئے تھے۔ جب ہوش آتا تو اٹھنے کی سکت نہیں ہوتی۔ میں نے ایک دو بار آواز لگا کر پوچھا تو عثمان اور خلیق نے جواب دیا مگر وہ بھی اٹھنے کے قابل نہیں تھے۔
آخر کار میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا مکمل چھا گیا۔ معلوم نہیں ہم وہاں کب تک بھوکے پیاسے بے ہوش رہے۔ شاید پورا دن ہم اسی طرح پڑے رہے اگلے دن یعنی ہفتے کو شاید دوپہر کا وقت تھا وہاں سے گزرنے والی ایک گاڑی میں سوار افراد نے ہمیں دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے ہمیں تھوڑا پانی پلا کر ہوش میں لایا۔ خلیق الرحمان نے پیاس کی شدت کی وجہ سے ایک بوتل پانی ایک ساتھ پی لیا۔
میری اور عثمان کی طبیعت نسبتاً بہتر ہوئی مگر خلیق الرحمان کی طبیعت  ٹھیک نہیں تھی۔ گاڑی والے نے بتایا کہ وہ تیل کی سمگلنگ کا کام کرتے ہیں انہوں نے ہم سب کو گاڑی میں سوار کیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہمارے کچھ اور ساتھی بھی بھٹک گئے ہیں گاڑی والے نے انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ان میں سے صرف فیصل آباد کا رہائشی ایک لڑکا بے ہوشی کی حالت میں ملا۔ گاڑی والے نے اسے بھی پانی پلایا اور گاڑی میں سوار کیا۔
گاڑی والے نے ایک دو گھنٹے سفر کے بعد پکی سڑک تک پہنچایا جہاں دو کمروں کا ایک ٹوٹا پھوٹا مکان تھا۔ تھوڑا پانی دے کر ہمیں وہیں اتار دیا۔ وہاں سے ایک 22 ویلر کنٹینر ڈرائیور نے ہمیں نوکنڈی تک پہنچایا۔
خلیق کی بہت زیادہ طبیعت خراب تھی ہم نے انہیں طبی امداد کے لیے نوکنڈی میں ہسپتال پہنچایا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔ وہاں سے ہم نے کرائے کی گاڑی کے ذریعے لاش دالبندین اور کوئٹہ پہنچائی۔ ہمارے پاس مزید کوئی رقم نہیں تھی اس لیے گھر والوں سے رابطہ کرکے پیسے منگوائے اور کوئٹہ سے اسلام آباد اور پھر گجرانوالہ لاش پہنچائی۔ فیاض کے مطابق سجاد اور خلیق آخری لمحوں میں بھی اپنے بچوں کے بارے میں فکر مند تھے۔

بہتر روزگار کے لیے لوگ غیر قانونی طور پر ملک چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

میرے والد 11 سال قبل وفات پا گئے۔ بڑے بھائی علیحدہ رہتے ہیں، والدہ اور دو یتیم بہنوں کی ذمہ داری میرے سر پر آ گئی، میں پہلے بھی دو بار غیر قانونی طور پر یورپ گیا جہاں 40 سے 50 ہزار ماہانہ تک کما لیتا تھا۔ دو سال پہلے والدہ بھی وفات پا گئی تو میں نے یورپ جانا چھوڑ دیا۔  
گھر آنے کے 25 دنوں بعد بھی میری ذہنی حالت اب تک معمول پر نہیں آئی۔ میں کسی سے اس موضوع پر زیادہ بات ہی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس بارے میں بات کرتے ہوئے میری ذہنی کیفیت بدل جاتی ہے۔ مجھے وہ مناظر یاد آنے لگتے ہیں تو روح کانپنے لگتی ہے۔
ایسی ہی صورتحال سے واقعہ میں بچ جانے والے ابوبکر اور قیصر انصاری کو بھی دو چار ہونا پڑا۔ انہیں ایک دوسری گاڑی میں سوار افراد نے بچایا جن کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ ابوبکر کے مطابق ’شاید وہ منشیات سمگلر تھے۔ دو دن تک اپنے پاس رکھنے کے بعد مسلح افراد نے طبیعت بہتر ہونے پر ہمیں تفتان بجھوایا جہاں سے ہم اپنے گھر پہنچے۔‘
رانا محمد سجاد کے بھائی زاہد حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ سجاد تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ تھا۔ اس کی بیوہ حاملہ ہے۔ وہ اپنے بچوں کی کفالت اور ان کا مستقبل سنوارنے پڑوسی ملک جا رہا تھا مگر انسانی سمگلروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن گیا۔

متاثرہ افراد کے لواحقین نے حکام سے انسانی سمگلروں کے خلاف کارروائی کی اپیل کی ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

'ہمیں نہیں معلوم کہ انسانی سمگلر نے ایسا کیوں کیا۔ کیونکہ سجاد 10 11 سالوں سے اسی ایجنٹ کی مدد سے اسی راستے سے جارہا تھا۔ سجاد کو اس پر اعتماد تھا مگر آخری سفر میں اس نے 11 ہزار روپے کے بجائے 35 ہزار روپے فی کس رقم کا مطالبہ کیا۔ سجاد نے انکار کیا تو اس نے یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے واقعہ کے بعد چاغی کی ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، اسسٹنٹ کمشنر تفتان کوتحریری درخواست بھی لکھ کر دی اس کے بعد ہمیں اطلاع دی گئی کہ حافظ محمد بلال کی لاش مل گئی ہے جس کی تصدیق ان کے قریب ملنے والے شناختی دستاویز سے کی گئی ہے مگر ان کی لاش آبائی علاقے بھیجنے کے بجائے وہیں امانتاً دفن کر دی گئی۔
مزید پڑھیں
رانا زاہد حسین کا کہنا تھا کہ تفتان کی انتظامیہ دونوں لاشیں ڈھونڈ کر لواحقین کے حوالے کریں۔ انسانی سمگلر کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے تاکہ وہ آئندہ کسی کا گھر تباہ نہ کر سکیں۔
سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے چک مبارک کے رہائشی حافظ محمد بلال کے والد محمد دلشاد نے بتایا کہ جب سے بلال کی والدہ نے بیٹے کی موت کا سنا ہے ان پر غشی کے دورے پڑ رہے ہیں، سارا دن روتی رہتی ہے۔ جب تک لاش واپس نہیں آئے گی ہمیں تسلی نہیں ملے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم غریب لوگ ہیں، ٹریکٹر چلا کر گھر کا گزر بسر کرتے ہیں، لاش ڈھونڈنے اور گھر لانے تک لاکھ دو لاکھ روپے خرچ ہوگا ہمارے پاس وہاں جانے تک کا کرایہ نہیں۔ انتظامیہ بھی ہماری مدد نہیں کر رہی۔
تفتان کے اسسٹنٹ کمشنر عصمت اللہ اچکزئی (جن کا اب تبادلہ ہوگیا ہے) نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں ورثا کی جانب سے تحریری درخواست موصول ہوئی تھی جس پر انہوں نے کارروائی کے لیے اعلیٰ حکام سے اجازت بھی مانگی مگر تبادلے کے بعد اب کیس پر پیشرفت سے متعلق وہ آگاہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ورثا کو چاغی آ کر قانونی کارروائی کرنے کا کہا گیا لیکن وہ خوفزدہ ہیں اور آنے سے کترا رہے ہیں۔ 

 ایف آئی اے کے کوئٹہ میں حکام نے رابطہ کرنے پر اس کیس سے لا علمی کا اظہار کیا ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے ذمہ دار وفاقی ادارے ایف آئی اے کے کوئٹہ میں حکام نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر اس کیس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
ایف آئی اے کے شعبہ انسداد انسانی سمگلنگ کے ایک آفیسر (جنہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں) نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 900 کلومیٹر طویل پاک ایران سرحد کی نگرانی مشکل ہے۔ آہنی باڑ لگنے سے صورتحال میں بہتری آ رہی ہے اس کے باوجود ہزاروں افراد ایران کی سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ 
چاغی کے مقامی صحافی علی رضا رند کے مطابق بلوچستان کے ضلع چاغی کی سرحدیں ایران اور افغانستان دونوں سے لگتی ہیں اس لیے یہ انسانی اور منشیات سمگلروں کا  گڑھ ہے۔ ہر مہینے ہزاروں پاکستانی اور افغان باشندے غیر قانونی طور پر بلوچستان سے گزر کر ایران اور یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
علی رضا نے بتایا کہ فورسز سے بچنے کے لیے سمگلر غیر روایتی ویران اور پہاڑی راستوں سے گاڑیوں کے ذریعے یا پیدل لوگوں کو لے جاتے ہیں، ان میں سے کئی لوگ راستے میں بھوک پیاس یا پھر چوٹ لگنے سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سمگلر انہیں بے گور وکفن چھوڑ دیتے ہیں اس لیے سرحدی علاقوں میں انسانی ڈھانچے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔

شیئر: