پاکستان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے بارے میں ایک تاثر انتہائی گہرا ہو چکا ہے وہ ہے پارٹی کے اندر دوبیانیوں کا تاثر۔
ایک ہے مزاحمت کا بیانیہ جو کہ براہ راست پارٹی قائد نواز شریف گزشتہ چند برسوں سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کی صورت میں سامنے لائے ہیں اور ایک ہے پارٹی کے صدر اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کا مفاہمت کا بیانیہ، جس میں سیاسی لڑائی کا دور دور تک شائبہ نہیں۔
مزید پڑھیں
-
مفاہمت تو دور حکومت سے بات بھی نہیں ہو سکتی، مریم نوازNode ID: 596361
-
نوازشریف یا شہباز شریف: ن لیگ میں جاری کشمکش کا نتیجہ کیا ہوگا؟Node ID: 600826
لیکن پارٹی نے کبھی بھی دو بیانیوں کے اس تاثر کو قبول نہیں کیا بلکہ جماعت کے رہنماؤں نے ہمیشہ اسے ایک سازش اور میڈیائی گپ شپ سے تعبیر کیا۔
اگر سازش نہیں بھی کہا تو اسے ’پارٹی کے اندر جمہوری روایت‘ کے خوش کن الفاظ میں ڈھانپے رکھا۔ حال ہی میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے عوامی سطح پر ان دو الگ الگ بیانیوں نے شک کی گنجائش کو تقریباً ختم ہی کر ڈالا ہے۔
مریم نواز نے چند روز قبل اسلام آباد عدالت میں پیشی کے موقع پر جب یہ کہا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے گناہ میں وہ شریک نہیں تھیں تو جواب میں حمزہ شہباز نے لاہور میں کہا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن پارٹی کا مشترکہ فیصلہ تھا اور قومی مفاد میں تھا۔
ان دونوں بیانات نے مسلم لیگ ن کے اندر گہرے ہوتے دو بیانیوں کے نقوش کو واضح کر دیا ہے۔
نواز شریف کی زباں سے مفاہمت کی بات
پیر کو مسلم لیگ ن کی تنظیمی میٹنگ میں مریم نواز اور حمزہ شہباز ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ مریم نواز نے اپنی تقریر حمزہ شہباز سے شروع کی، ان کا کہنا تھا ’میاں صاحب کا جو بیانیہ ہے جس کا رانا (ثنااللہ) صاحب نے بھی ذکر کیا۔ یہ میرا بھائی حمزہ یہاں بیٹھا ہے، میں حمزہ کے لیے دل سے دعاگو ہوں۔ بہت اچھا انسان ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں ہماری سوچ مختلف ہو سکتی ہے۔ ہم دو انسان ہیں۔ پارٹی کے اندر مختلف قسم کی آرا ہوتی ہیں۔ طریقہ کار بھی مختلف ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم سب ایک بات پر متفق ہیں کہ ہمارے گھر کا سربراہ اور پارٹی کا سربراہ نواز شریف ہے۔‘

سیاسی مبصرین کے مطابق مریم نواز کی باڈی لینگوئج یہ بتا رہی تھی کہ وہ اپنے گزشتہ بیانات پر مدافعتی رویہ اپنا رہی ہیں۔ صرف یہی نہیں جب لندن سے میاں نواز شریف نے بھی اسی میٹنگ سے خطاب کیا تو ان کی ساری تقریر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک چارج شیٹ لگ رہی تھی لیکن انہوں نے کچھ ان الفاظ سے اپنی تقریر کا اختتام کیا کہ ’ہمیں لڑنے کا کوئی شوق نہیں نہ ہم لڑنا چاہتے ہیں، قانون اور آئین کی حکمرانی ہمیں مفاہمت سے ملے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو لڑنے کا شوق نہیں تھا۔‘
مسلم لیگ ن کے کسی بھی پارٹی فورم پر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ نواز شریف نے کسی بھی سیاق و سباق میں کھل کر مفاہمت کی بات کی ہے جبکہ مریم نواز نے کھل کر سیاسی طریق کار پر پارٹی اختلاف کو مانا ہے۔
تو ایسے میں کئی سوال جنم لیتے ہیں کہ اچانک مسلم لیگ ن میں ایسا کیا ہوا ہے کہ معاملات اب ٹی وی سکرینوں اور اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔
متضاد بیانیے ’دو بھائیوں کی شخصیت کے عکاس‘
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن کے اندر ہمیشہ سے دو بیانیے رہے ہیں۔ اور یہ دونوں بیانیے بنیادی طور پر دونوں بھائیوں کی شخصیت کے عکاس ہیں۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سہیل وڑائچ کہتے ہیں ’پچھلے ادوار میں کبھی پارٹی کو ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ اتنا لمبا عرصہ صرف بیانیوں کے سر پر ہی چلنا پڑے۔ یہ اختلاف اور باتیں جو سامنے آ رہی ہیں یہ اس بات کی مظہر ہیں کہ وقت زیادہ ہو گیا ہے۔ اور ابھی فاصلہ بھی طویل ہے۔‘

’سیاست دانوں پر لڑائی تھوپی گئی ہے‘
پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا مفاہمت کی بات کرنا ایک اچھے سیاست دان کی نشانی ہے ’میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف اور کہے بھی کیا؟ کیا ہماری تاریخ ہمارے سامنے نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ سیاست دانوں نے کبھی بھی لڑائی شروع نہیں کی۔ یہ لڑائی ان پر تھوپی گئی ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ میرا خیال ہے اب وقت آ گیا ہے کہ لڑائی یہیں روک دی جائے۔ کیونکہ اس سے نقصان ملک کا ہی ہو رہا ہے۔‘
پروگرام نقطہ نظر کے میزبان اور سینئر صحافی اجمل جامی کہتے ہیں کہ پارٹی کے اندر دونوں بیانیے ابھی کچھ دیر اور رہیں گے ’اگلے سال اہم عہدوں پر کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں، غالباً یہ مارچ اپریل میں ہو گا۔ تو اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ یہ دو بیانیوں والی بات بہت پیچھے رہ جائے گی۔ اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ مفاہمت کا بیانیہ ہی آگے کا رستہ نکالے گا۔ کیونکہ اس کی ایک جھلک سب سے کینٹ کے انتخابات میں دیکھ لی ہے۔‘
