Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں اثر و رسوخ کے لیے پاکستان اور قطر دونوں کی ’جنگ‘

قطری وزیر خارجہ وہ پہلی اعلٰی غیرملکی شخصیت ہیں جنہوں نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کا دورہ کیا (فائل فوٹو: روئٹرز)
افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلا نے افغانستان کا سیاسی منظر نامہ بدل کر رکھ دیا ہے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اب نئے علاقائی کھلاڑی سامنے آئے ہیں۔ 
بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر مبنی امریکی میگزین ’دا نیشنل انٹرسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق 1990 کی دہائی میں متحدہ عرب امارات، پاکستان اور سعودی عرب نے طالبان کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ اس کے ساتھ تعاون بھی کیا تھا، لیکن اس بار طالبان امریکہ مخالف ممالک سے مدد چاہ رہے ہیں جن میں چین، روس اور ایران شامل ہیں۔
ان کے علاوہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد قطر بھی بااثر حیثیت اختیار کر رہا ہے۔ 
افغانستان میں قطر کا اثر و رسوخ 2013 میں اس وقت شروع ہوا جب اس نے دوحہ میں افغانستان کے سیاسی دفتر کی میزبانی کی۔ قطر کو امریکی تعاون حاصل تھا اور اس نے طالبان سے راہ و رسم بڑھانے کے لیے ثالثی کا کردار اختیار کرلیا۔ تب سے قطر نے امن مذاکرات کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے جس کے نتیجے میں 2020 میں امریکہ اور افغانستان کے درمیان معاہدہ طے پایا۔
جب افغانستان سے غیر ملکیوں کی انخلا کی عالمی کوششیں ہو رہی تھیں اس دوران بھی قطر نے ان کوششوں کے لیے جن کی مثال ماضی میں نہیں ملتی، لوگوں کی منتقلی کے لیے ٹرانزٹ ہب فراہم کیا۔ 
بطور میزبان قطر نے سیاسی منظر نامے میں اپنی جگہ بنائی۔ اب جب طالبان پورے ملک کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں ایسے میں قطر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کا خواہاں ہے۔  
قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی وہ پہلی اعلٰی غیر ملکی شخصیت ہیں جنہوں نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کا دورہ کیا ہے۔  

ملا برادر نے قطر میں سیاسی دفتر میں رہ کر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی سربراہی کی تھی (فائل فوٹو:اے ایف پی)

الثانی نے طالبان کے درمیان باہمی نزاع کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد کابل کا دورہ کیا۔ ایسی ہی رپورٹس کی بنیاد پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے بھی الثانی سے پہلے کابل کا دورہ کیا تھا۔  
خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا دورہ طالبان کی کابینہ کی تشکیل میں بڑا معاون ثابت ہوا اور طالبان کے لیڈر ملا عبدالغنی برادر کو نائب کے عہدے پر فائز ہونا پڑا اور سخت گیر رہنماؤں کو حکومت میں اکثریت حاصل ہوئی۔ اس سے ملا برادر سیاسی منظر سے اس وقت تک غائب رہے جب تک قطر کے وزیرِ خارجہ نے کابل کا دورہ نہیں کیا۔ 
آپس کے جھگڑوں میں گھرے طالبان اور موجودہ صورت حال خطے میں ایک نئی بڑی گیم کے شروع ہونے کی نشاندہی کر رہی ہے۔  
طالبان کی قیادت کے درمیان جھگڑوں کے دوران ہی قطر اور پاکستان طالبان پر اپنا سب سے زیادہ اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ پاکستان نے طالبان کو تقریباً دو دہائیوں تک پناہ گاہیں فراہم کی ہیں جبکہ قطر نے انہیں سیاسی تعاون فراہم کیا اور مذاکرات کے لیے فضا سازگار بنائی تھی۔
سخت گیر موقف رکھنے والے طالبان جنہیں پاکستان میں تحفظ ملا تھا، وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ دوحہ میں سیاسی دفتر چلانے والے اعتدال پسند قطر کے زیادہ قریب ہو گئے ہیں۔ 
ملا برادر نے قطر میں سیاسی دفتر میں رہ کر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی سربراہی کی تھی۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی سے صلح چاہنے کی وجہ سے وہ پاکستان میں بھی جیل میں رہے۔ 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کہنے پر انھیں رہا کیا گیا۔ طالبان میں ملا برادر کا گروپ نسبتاً معتدل سمجھا جاتا ہے، تب سے ملا برادار سیاسی طور پر قطر کے قریب اور پاکستان سے فاصلے پر رہے ہیں۔

افغانستان میں جمہوری تجربے کی ناکامی سے قبل قطر ان چند ممالک میں شامل تھا جن کا کابل میں سفارت خانہ نہیں تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اب جبکہ قطر افغانستان میں اثر و رسوخ چاہتا ہے اس نے اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے دیگر ’کھلاڑیوں‘ کو بھی سیاسی میدان میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ قطر کا انڈیا سے بھی رابطہ ہے اور اس نے انڈیا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کی ہے۔ علاوہ ازیں ترکی بھی بڑی کوشش میں ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت میں ترکی کے گروپوں کا بھی کردار رہے۔ 
افغانستان میں قطر کے کردار کو علیحدہ حیثیت میں نہیں بلکہ اس کی مشرقِ وسطٰی کی وسیع تر حکمتِ عملی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ قطر اور ترکی خطے میں اپنے اثر بڑھانے کی کوششوں میں ہیں۔ ترکی سنی مسلم دنیا میں لیڈر بننا چاہتا ہے اور قطر سعودی عرب کے اثر کو چیلنج کرنا چاہتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت ان کی طرف سے مصر میں اخوان المسلمین کی حمایت ہے۔ اخوان المسلمین کو سعودی عرب اور امارات نظریاتی حریف سمجھتے ہیں اور قطر افغانستان میں طالبان کی حمایت کر کے یہی کچھ کرنا چاہتا ہے۔ 

طالبان کی قیادت کے درمیان جھگڑوں کے دوران ہی قطر اور پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے مدمقابل ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 2003 میں طالبان کے سامنے آنے کے بعد سعودی عرب بڑی حد تک افغانستان سے دور رہا ہے۔ ریاض نے اپنی سیاسی ترجیحات تبدیل کی ہیں اور انتہا پسندی کو بیرونی دنیا میں پھیلانے کے بجائے داخلی معاملات کو ترجیح دی ہے، لیکن اب پاکستان کا سعودی عرب سے خصوصی تعلق اور افغانستان میں قطر کا بڑھتا ہوا اثر سعودی عرب کو ایک بار پھر افغانستان میں لا سکتا ہے۔ 
افغانستان میں جمہوری تجربے کی ناکامی سے قبل قطر ان چند ممالک میں شامل تھا جن کا کابل میں سفارت خانہ نہیں تھا۔ اب قطر کا سفارتی مشن کابل میں سرینا ہوٹل میں قائم ہو گیا ہے۔ قطر اور پاکستان میں بڑی گیم، وقت کا گزرنا بتائے گا کہ آیا قطر سرینا ہوٹل میں مہمان رہتا ہے یا امریکی انخلا کے بعد کے افغانستان میں بڑا کھلاڑی بن جاتا ہے۔ 

شیئر: