Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم قتل کیس، ظاہر جعفر کے والدین سے 20 اکتوبر تک جواب طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈیجیٹل شواہد فراہم کرنے کی درخواست پر انہیں نوٹس جاری کرتے ہوئے 20 اکتوبر تک جواب طلب کر لیا ہے۔ 
جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے ملزمان ذاکر جعفر اور عصمت ذاکر کی درخواست پر سماعت کی جس میں ٹرائل کورٹ کے سات اکتوبر کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
درخواست گزار کے وکیل اسد جمال نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’ابھی تک سی سی ٹی وی فوٹیج، فرانزک رپورٹ اور دیگر  شواہد فراہم نہیں کیے  گئے اور عدالت نے ملزمان پر فرد جرم بھی عائد کردی ہے، 20 اکتوبر کو ٹرائل کورٹ میں شہادتیں قلمبند ہوں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ عدالت نے مناسب وجہ بتائے بغیر دستاویزات فراہم کرنے کی درخواست مسترد کی۔ ٹرائل سے پہلے تمام دستاویزات فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔
عدالت نے سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈیجیٹل شواہد فراہم کرنے کی درخواست پر مدعی مقدمہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 20 اکتوبر تک جواب طلب کر لیا۔ 
یاد رہے کہ جمعرات کو اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔ 
ملزمان کو عدالت لایا گیا تو ظاہر جعفر کے بال ترشے ہوئے تھے۔ ملزم نے سرمئی رنگ کا ٹراوزر، چیک دار قمیض اور اس کے اوپر سی گرین رنگ کا ہلکا سویٹر پہنا ہوا تھا۔
ان کے ساتھ ہتھکڑیوں میں خاکی شلوار قمیص میں ملبوس ان کے والد اور شریک ملزمان گھریلو ملازمین بھی تھے۔ دوران سماعت ایک موقع پر ملزم کرسی پر بیٹھی اپنی والدہ کے پاس گئے اور ان سے کچھ دیر سرگوشیاں کرتے رہے۔ 
بعد ازاں اردو نیوز کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنی والدہ کو بتا رہے تھے کہ تین چار ماہ سے وہ کن حالات میں جیل میں بند ہیں۔ 
دوران سماعت ایک اور موقع پر ظاہر جعفر نے تسلیم کیا کہ ان کی نور مقدم سے لڑائی ہوئی تھی اور ان سے غلطی ہو گئی جس پر وہ معافی چاہتے ہیں۔
ملزم نے کہا کہ وہ جیل میں نہیں جانا چاہتے وہاں پر محافظ اور دوسرے لوگ ان پر تشدد کرتے ہیں اور اس طرح ان کی زندگی ضائع ہو رہی ہے۔

شیئر: