Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترک فوجیوں نے افغان پناہ گزینوں کو مارا اور زبردستی واپس بھیج دیا: ہیومن رائٹس واچ

یہ عمل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے(فوٹو اے ایف پی)
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا ہے کہ ترک حکام ایران سے آنے والے افغان پناہ گزینوں کو ترکی پہنچتے ہی پر تشدد طریقے سے واپس بھیج رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ یہ عمل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کے نتیجے میں کچھ خاندان الگ ہو گئے ہیں۔
چھ افغان جن میں سے پانچ کو واپس بھیج دیا گیا تھا نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ترک فوج نے انہیں اور ان کے ساتھی مسافروں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
ایچ آر ڈبلیو کےسینئیر محقق بیلکیس ولی نے کہا کہ ’ ترک فوجی افغانوں کو غیر قانونی طور پر بدسلوکی کر رہے ہیں جبکہ انہیں غیر قانونی طور پر واپس بھیج رہے ہیں۔‘
بیلکیس ولی نے کہا کہ ’یورپی یونین کے رکن ممالک کو ترکی کو افغان پناہ گزینوں کے لیے تیسرا محفوظ ملک نہیں سمجھنا چاہیے۔ افغان شہریوں کی ملک بدری اور جبری واپسی کو معطل کرنا چاہیے بشمول ترکی جیسے تیسرے ممالک میں جہاں ان کے حقوق کا احترام نہیں کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انہیں یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ترکی کے راستے یورپی یونین میں داخل ہونے والے افغان باشندوں کو منصفانہ اور موثر پناہ کے طریقہ کار تک رسائی حاصل ہو۔‘
ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ اس نے 25 ستمبر سے 11 اکتوبر کے درمیان چھ افغانوں سے انٹرویو لیا تھا۔ ان میں سے پانچ ایران سے بے دخل ہونے سے بچنے کے لیے ترکی میں چھپے ہوئے تھے اور ایک کو تیسری بار زبردستی ایران واپس لایا گیا تھا۔ وہ سب 15 اگست سے کچھ دیر پہلے یا اس کے بعد افغانستان سے بھاگ گئے تھے جب طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا۔
افغانوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان اور ایران کے راستے سفر کیا تھا اور یہ کہ ایرانی سمگلر انہیں آدھی رات کو ترکی کی سرحد پر لے گئے اور انہیں کہا کہ وہ بھاگ کر پار چلے جائیں۔ ترک فوجیوں نے ان پر فائرنگ کی جبکہ دو نے کہا کہ انہیں فوجیوں نے بے رحمی سے مارا پیٹا۔

ترکی دنیا کی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے(فوٹو ٹوئٹر)

ایک افغان نے کہا کہ وہ اپنی پہلی کوشش میں کامیابی کے ساتھ ترکی میں رہا جبکہ دوسرے کو ایران واپس بھیج دیا گیا۔ دیگر چار نے بتایا کہ ترک فوجیوں نے انہیں ترکی میں رہنے میں کامیاب ہونے سے پہلے تین بار واپس جانے پر مجبور کیا۔
ایک خاتون نے کہا کہ ’ایک بار جب انہوں نے ہمیں گرفتار کیا، انہوں نے ہمارے فون، پیسے،کھانا اور جو کچھ ہم ساتھ لے جا رہے تھے ضبط کر لیا اور ہماری تمام چیزوں کو آگ میں جلا دیا۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ انہوں نے ہمیں یہ پیغام بھیجنے کے لیے کیا کہ ہمیں دوبارہ سرحد عبور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔‘
ایک شخص نے بتایا کہ انہوں نے اس کے گروپ کے مردوں کے کپڑے اور سامان جلا دیا اور پھر انہیں زبردستی واپس کر دیا۔
ایک اور شخص نے بتایا کہ فوجیوں نے ان پر شدید تشدد کیا اور اس گروپ کے کئی افراد کے ہاتھ،بازو اور ٹانگیں توڑ دیں۔
خیال رہے کہ ترکی دنیا کی سب سے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے جن میں شام سے 3.7 پناہ گزین ہیں جنہیں عارضی تحفظ کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ  چار لاکھ سے زائد مہاجرین افغانستان، عراق اور دیگر ممالک سے آئے ہیں۔

 

شیئر: