Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نسلہ ٹاور کو دھماکے سے گرانے کے لیے نجی اداروں کی خدمات لینے کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے کراچی میں قائم نسلہ ٹاور کو کنٹرول بلاسٹنگ کے ذریعے منہدم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے تاہم متعلقہ حکومتی اداروں کی مشاورت میں سامنے آیا کہ کسی حکومتی ادارے کے پاس ایسا آپریشن انجام دینے کی تربیت اور صلاحیت موجود نہیں، جس کے بعد نجی اداروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اشتہار دیا گیا ہے۔
کراچی کے قلب میں واقع شارع فیصل اور شاہراہِ قائدین کے سنگم پر قائم 11 منزلہ رہائشی عمارت نسلہ ٹاور کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد سپریم کورٹ نے جولائی میں اس عمارت کو گرانے کے احکامات دیے تھے، تاہم رہائشیوں کے احتجاج اور متعلقہ اداروں کی جانب سے تاخیر کے باعث عدالتی احکامات کی تکمیل ممکن نہ ہوسکی تھی۔
گذشتہ ہفتے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جاری کراچی بحالی کیس کی سماعت کے دوران متعلقہ اداروں کی مبینہ نااہلی پر برہمی کا اظہار کیا اور ایک ہفتے کے اندر نسلہ ٹاور کو منہدم کرنے کا حتمی فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمارت کو کنٹرولڈ بلاسٹنگ (دھماکے) کے ذریعے منہدم کیا جائے۔
چیف جسٹس کی جانب سے کنٹرولڈ بلاسٹنگ کے ریمارکس کے بعد کمشنر کراچی کی صدارت میں اعلٰی سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں شہری انتظامیہ کے علاوہ فوج کے انجینیئرز، ایف ڈبلیو او اور این ایل سی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی، اور کنٹرولڈ بلاسٹنگ کے حوالے سے اپنے اداروں کی استعداد اور صلاحیت سے آگاہ کیا۔
ایف ڈبیلو او، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، پاکستان رینجرز، منرلز اینڈ مائنز، شعبہ تجاوزات بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سینیئر افسران، این ای ڈی کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار سانگی کے علاوہ ڈپٹی کمشنر شرقی آصف جان صدیقی، ایس ایس پی شرقی قمر رضا جسکانی اسسٹنٹ کمشنر فیروز آباد عصمہ بتول و دیگر نے اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس میں نسلہ ٹاور گرانے کے تمام تیکنکی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ عمارت گرانے کے لیے ڈیمولیشن کمپنیوں سے اشتہار کے ذریعے درخواستیں طلب کی جائیں گی۔
ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اجلاس کے دوران تمام اداروں کے افسران نے اتنی اونچی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے کنٹرولڈ بلاسٹنگ کا تجربہ نہ رکھنے کا عندیہ دیا، جس کے بعد نجی ڈیمولیشن کمپنی کو ٹھیکہ دینے کا فیصلہ ہوا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ یہ معاملہ شاید انٹرنیشنل بڈِنگ اور ملٹی نیشنل کمپنی کو ٹھیکہ دینے تک جائے، اور اس کام پر کئی کروڑ روپے لاگت آسکتی ہے۔
اس حوالے سے شہری تعمیرات کے ماہر محمد توحید نے اردو نیوز کو بتایا کہ کنٹرولڈ بلاسٹنگ ترقی یافتہ ممالک میں تو خاصی معمول کی بات ہے، تاہم پاکستان میں تاحال کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی کثیر المنزلہ عمارت کو اس طریقے سے منہدم کیا جائے۔
’یہی وجہ ہے کہ شہری یا صوبائی اداروں کے پاس اس حوالے سے کوئی تجربہ موجود نہیں۔‘

تعمیراتی ماہر محمد توحید نے بتایا کہ پاکستان میں فی الوقت کوئی کمپنی ایسی نہیں جو کنٹرولڈ بلاسٹنگ کرتی ہو (فائل فوٹو: روئٹرز)

کنٹرولڈ بلاسٹنگ کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے محمد توحید نے بتایا کہ اس عمل میں بارودی مواد کو انتہائی ناپ طول کر استعمال کیا جاتا ہے، جس کے لیے پہلے باقاعدہ فزیبیلٹی رپورٹ بنائی جاتی ہے اور منہدم کی جانے والی عمارت کے اطراف انتظامات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں کہ مکمل عمارت کو اسی حال میں منہدم کردیا جائے، بلکہ پہلے مرحلے میں عمارت سے تمام اشیا، جیسا کہ جنگلے، شیشے، دروازے، سینیٹری کا سامان و دیگر سامان نکالا جاتا ہے۔ جب صرف عمارت کا ڈھانچہ رہ جاتا ہے تو پھر اسے ترتیب وار دھماکوں سے ایسے منہدم کیا جاتا ہے کہ عمارت کا ملبہ مزکورہ مقام پر گرے، اور کم سے کم علاقہ متاثر ہو۔
’نسلہ ٹاور کو منہدم کرنا یوں بھی خاصا مشکل ہوگا کہ عمارت بالکل روڈ پر قائم ہے، اور ایک جانب چند میٹر کے فاصلے پر فلائی اوور ہے، جبکہ دوسری جانب عمارت سے متصل شہر کی مصروف ترین شاہراہ، شارع فیصل ہے۔
تعمیراتی ماہر محمد توحید نے بتایا کہ پاکستان میں فی الوقت کوئی کمپنی ایسی نہیں جو کنٹرولڈ بلاسٹنگ کرتی ہو، لہٰذا قوی امکان یہی ہے کہ اگر واقعی کنٹرولڈ بلاسٹنگ کرنا ہوئی تو بیرون ملک کسی کمپنی کو اس کا ٹھیکہ جائے گا۔
’نہیں تو آخر میں ہوگا یہی کہ انسانی مدد سے یکِ بعد دیگرے فلورز کو توڑا جائے اور اس طرح منہدم کرنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کنٹرولڈ بلاسٹنگ خاصا مہارت کا کام ہے اور اس پر کروڑوں روپے کی لاگت متوقع ہے، خاص طور پر اگر کسی ملٹی نیشنل کمپنی کو کنٹریکٹ ملا تو لاگت کئی گنا ہو جائے گی۔ مشکل ہے کہ حکومت یہ لاگت اٹھا پائے۔

شیئر: