لاہور ہائیکورٹ نے مذہبی کالعدم تنظیم تحریک لیبک کے سربراہ سعد رضوی کے وکیل کی استدعا پر انہیں مہلت دی کہ وہ اس قانونی نکتہ پر مطمئن کریں کہ جب نظربندی کا حکم ہی موثر نہیں رہا تو اس کے خلاف درخواست کیسے قابل سماعت ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر سماعت کی تو ان کے وکیل میاں پرویز حسین نے بتایا کہ ’حکومت اور تحریک لبیک میں انڈرسٹینڈنگ ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
سپریم کورٹ نے سعد رضوی کی رہائی کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیاNode ID: 608416
بنچ نے وکیل کو باور کرایا کہ سوال انڈرسٹینڈنگ کا نہیں بلکہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا ہے۔
بنچ نے نشاندہی کی کہ ’اگر ایک حکم ہی موجود نہیں تو پھر اس پر قانونی نکات پر کیسے بحث کی جاسکتی ہے۔ عدالت نے قانونی نکات پر بات کرنی ہے اس کے فلسفے پر نہیں۔‘
سعد رضوی کے وکیل نے بار بار یہ استدعا کی کہ انہیں مہلت دی جائے تاکہ وہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں اپنے موقف پیش کریں۔
بنچ نے وکیل کو باور کرایا کہ جو نقاط اب اٹھائے جا رہے ہیں وہ سپریم کورٹ میں کیوں نہیں اٹھائے گئے؟
بنچ نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ نقاط سپریم کورٹ میں اٹھائے جاتے تو اس کا وہیں جواب مل جاتا۔
’جس نظر بندی کے حکم نامے کو اس عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے وہ اب سرے سے موجود ہی نہیں جو چیز موجود ہی نہ ہو اس کو کیسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ بہتر یہ آپ درخواست واپس لے لیں۔‘
وکیل پرویز حسین نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں ان قانونی نقاط پر تیاری کے لیے وقت دیا جائے۔ عدالت نے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے انہیں کل تک کا وقت دیا ہے کہ وہ اپنی تیاری کر کے آئیں اور سماعت ملتوی کر دی۔
