Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر: لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے لواحقین پولیس حراست میں

سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’یہ ہے 2021 کا نیا کشمیر۔ (تصویر: باسط زرگر)
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دو افراد کی لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے خاندانوں کے کئی افراد کو ایک مظاہرے کے دوران پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا اور ان کو مظاہرے کی جگہ سے ہٹا دیا گیا۔
واضح رہے پیر کی شب سرینگر کے قریب ایک مبینہ مقابلے میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان میں سے دو افراد کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ تھے۔
دونوں افراد کی شناخت الطاف احمد بھٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کے نام سے ہوئی تھی۔
انڈین میڈیا کے مطابق پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے افراد کو ہنڈوارا میں ان کے خاندانوں کی غیرموجودگی میں دفن کردیا گیا تھا۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ مرنے والے افراد میں سے دو لوگ الطاف احمد بھٹ اور ڈاکٹر مدثر گل دہشت گردوں کے سہولت کار تھے۔
انڈیا کے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق آئی جی وجے کمار کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مدثر گل بطور کرایہ دار الطاف احمد بھٹ کے گھر میں رہ رہے تھے اور اسی گھر کا ایک کمرہ عسکریت پسندوں کے استعمال میں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص عسکریت پسندوں کو ٹھکانہ فراہم کرتا ہے تو اسے پتہ ہونا چاہیے کہ اس کے متوقع نقصانات کیا ہوسکتے ہیں۔ تاہم ان دونوں افراد کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کا کسی عسکریت پسند سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
مقامی صحافی شاہد تانترے نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں پولیس اہلکاروں کو ان افراد کے خاندانوں کے چند افراد کو حراست میں لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’پولیس نے احتجاج کرنے والے اہلخانہ کو جو لاشوں کی واپسی کا مطالبہ کررہے تھے حراست میں لے لیا ہے۔‘
مقامی صحافی باسط زرگر نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی اور اس میں ڈاکٹر مدثر گل کے خاندان کی ایک خاتون کہہ رہی تھیں کہ ’مہربانی کرکے ہم کو ڈیڈ باڈی دیجیے۔ ہم کو یہ شوق نہیں ہے کہ ہم ٹی وی پر آئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے ’بیگناہ لوگوں کو مارا۔‘ پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے دوسرے شخص الطاف احمد بھٹ کی بیٹی نے اس چھاپے کے حوالے سے ایک ویڈیو میں کہا کہ انہوں نے چھاپہ مارنے والے افراد کو اپنے والد کے بیگناہ ہونے کے حوالے سے بتایا لیکن جواب میں وہ ہنستے رہے۔
وہ بہت بے شرمی سے ہنس رہے تھے میں کیا جواب دیتی ان کو۔‘
الطاف احمد بھٹ کی بیٹی نے مزید کہا کہ ’میرا بھائی سیکنڈ کلاس میں ہے، وہ بہت چھوٹا ہے اس کو ہم کیا کہیں گے؟
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے مظاہرین کو حراست میں لینے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’معصوم شہریوں کے جسد خاکی واپس کرنے کے بجائے پولیس نے ان کے خاندان والوں کو گرفتار کرلیا ہے۔‘
ایک اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’یہ ہے 2021 کا نیا کشمیر۔‘

’اس طرح سے جموں اینڈ کشمیر پولیس انڈین وزیراعظم کے وعدے دل کی دوری، دلی سے دوری کو پورا کررہی ہے۔‘
اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں حمیرا امتیاز نامی صارف نے کہا ’کشمیر میں گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے خاندان کو خدا حافظ کرلیا کریں کیونکہ آپ کو نہیں پتہ کہ آپ گھر واپس آئیں گے یا نہیں۔‘
مظاہرین کو حراست میں لیے جانے کے حوالے سے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے آئی جی وجے کمار کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو صرف وہاں سے ہٹایا گیا تھا اور حراست میں نہیں لیا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ سب اب اپنے گھر پر موجود ہیں۔‘

شیئر: