Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دی فاسٹیسٹ‘، مشرق وسطیٰ کے کار ریسرز کو دنیا میں متعارف کروانے کا پلیٹ فارم

شو میں حصہ لینے والے ریسرز کا کہنا ہے کہ ان کی آپس میں دوستیاں ہوئی ہیں (فوٹو عرب نیوز)
شام سے ابوظبی آنے والی کار ریسر بشری نصر جانتی تھیں کہ وہ کار ریس میں حصی لیں گی۔ وہ جانتی تھیں کہ وہاں کیمرے ہوں گے اور جو سرگرمی ہو رہی ہوگی وہ خطے میں کہیں نہ کہیں دکھائی جا رہی ہوگی۔
لیکن بشری نصر اور خطے کے دیگر ممالک سے آنے والے نو ریسرز کو معلوم ہوا کہ وہ نیٹ فلکس کی پہلی عربی زبان میں بننے والی ریالٹی سیریز ’دی فاسٹیسٹ‘ میں حصہ لینے والے ہیں۔
بشری نصر نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ سب مکمل سرپرائز تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید ہم صرف ایک ریس میں حصہ لیں گے، لیکن وہ ہر روز آتے اور بتاتے کہ آج ہمیں کہاں جانا ہے اور ہم مختلف ریسز اور چیلنجز میں حصہ لیتے۔ وہ سب منفرد تھے جو ہم نے پہلے نہیں کیے تھے۔‘
بشری نصر کئی برس سے کار ریس کے ساتھ اپنی محبت نبھا رہی تھیں۔ انہوں نے مختلف مقابلوں میں حصہ لے کر خطے کے کار ریسرز میں اپنا مقام بنایا۔ حتی کہ ایسے مردوں سے بھی مقابلے جیتے جنہوں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک نوجوان خاتون ان سے سبقت لے جائے گی۔
ان کا خواب صرف ریس کے مقابلے  جیتنا نہیں تھا بلکہ وہ اس سے آگے بھی سوچتی تھیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ ’ٹاپ گیئر‘ شو میزبان جیریمی کلارک سن جیسی بنیں۔
 اس ریالٹی شو کی وجہ سے شاید بشری اور ان کے ساتھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ بشری کی توجہ صرف اپنے اوپر نہیں ہے بلکہ وہ چاہتی ہیں کہ دیگر نوجوان خواتین کے لیے بھی مشعل راہ بنیں۔
 ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین ہونے کے ناطے یہ تجربہ ہمارے لیے بہت اچھا تھا۔ دنیا دیکھے گی کہ کار ریسنگ کے لیے خواتین کتنی پرجوش ہیں اور اس سے نوجوان خواتین کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔‘
ریالٹی شو ’دی فاسٹیسٹ‘ کے پہلے سیزن میں مقابلہ سخت تھا، لیکن بشری کے مدمقابل ریسرز بھی ان کی کامیابی سے متاثر ہوئے جن میں ایک اور فائنلسٹ سعودی ریسر عبدالعزیز ال یاعش بھی تھے۔

ریالٹی شو ’دی فاسٹیسٹ‘ میں خطے کے بہترین ریسرز شامل ہیں (فوٹو عرب نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ ’اس شو کا سب سے اچھا حصہ بشری کو جیتتے ہوئے دیکھنا تھا۔ اس شو نے ثابت کیا کہ ریسنگ کا انحصار اچھی کار کے ساتھ ایک اچھے ڈرائیور کی مہارت پر بھی ہے۔‘
سعودی ریسر عبدالعزیز فدہیلی کے لیے یہ اہم تھا کہ ریالٹی شو دنیا کے بڑے سٹریمنگ پلیٹ فارم پر 190 ممالک میں دکھایا جائے گا جس سے دنیا خطے میں کا ریس کے حوالے سے پایا جانے والا شوق و جذبہ دیکھے گی۔
انہوں نے ریس کے لیے کار خریدنے کے لیے اپنے جاننے والوں سے رقم ادھار لی اور ریس ٹریک پر ان کی کارکردگی انہیں یہ پیسے واپس لوٹانے کے قابل بنائے گی۔
ریالٹی شو ’دی فاسٹیسٹ‘ میں خطے کے بہترین ریسرز شامل ہیں جن میں کویتی ریسر علی مخسید بھی ہیں۔ انہوں نے اس شرط پر ریس میں حصہ لیا کہ ان کے مدمقابل خطے کے بہترین ریسرز ہونے چاہیں۔
اس شو کی چھ اقساط ہیں اور پہلے سیزن کی میزبانی سعودی یو ٹیوبر طارق الحربی نے کی ہے جن کے مزاحیہ انداز کی وجہ سے ان کے دس لاکھ سبسکرائبرز ہیں اور انسٹاگرام پر ایک کروڑ فالورز ہیں۔

سعودی ریسر عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے یہ تجربہ علم حاصل کرنے جیسا تھا۔‘ (فوٹو عرب نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’عرب صارفین کےلیے عربی زبان میں بنایا گیا تجسس سے بھرپور شو ایک خواب سے کم نہیں۔ آپ پیش گوئی نہیں کر سکیں گے کہ کون جیتے گا۔ میرے خیال میں لوگ اس شو کو دیکھنا نہیں چھوڑیں گے اور اس بات سے مجھے فخر محسوس ہوتا ہے۔‘
اس شو میں حصہ لینے والے ریسرز کا کہنا ہے کہ ان کی آپس میں دوستیاں ہوئی ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ٹپس شیئر کی گئیں، کاروں کی دیکھ بھال میں مدد کی گئی اور ایک دوسرے کے خلاف ریس بھی ہوئی۔
سعودی ریسر عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے یہ تجربہ علم حاصل کرنے جیسا تھا اور دوبارہ اس کا حصہ بننا چاہوں گا۔ میں اپنی کار کے ساتھ تیار رہوں گا اور ہر ریسر کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانوں گا تاکہ اگلی مرتبہ مجھے کوئی نہ ہرا سکے۔‘

شیئر: