Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال سے پرواز ’پی کے 661‘ کو حادثے سے پہلے اور بعد میں کیا ہوا؟

نعت خواں اور ماضی کے گلوکار جنید جمشید بھی سوار تھے (فوٹو: فیس بک)
یکم دسمبر 2020 کو سندھ ہائی کورٹ میں حویلیاں طیارہ حادثہ کیس کی سماعت کے دوران پی آئی اے کے بدقسمت طیارے پی کے 661 کے پائلٹ احمد منصور جنجوعہ کی والدہ شاہدہ منصور جنجوعہ عدالت کے سامنے یہ کہتے ہوئے رو پڑیں کہ ’میرے بیٹے کو خراب جہاز اڑانے پر مجبور کیا گیا تھا۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے بیٹے نے متعدد بار پی آئی اے حکام کو آگاہ کیا تھا کہ اے آٹی آر طیارہ خراب ہے اور اس کا کچھ کام ہونے والا ہے۔ وہ گھر کا واحد کفیل تھا، اس لیے کہتا تھا کہ ملازمت کی مجبوری ہے کہ خراب طیارہ اڑانا پڑ رہا ہے۔‘ 
سات دسمبر 2016 کو چترال سے اسلام آباد کے لیے اڑان بھرنے والے طیارے کے پائلٹ احمد منصور جنجوعہ کی والدہ نے چترال ایئرپورٹ پر اس صبح ہونے والی اس تکرار کی یاد تازہ کر دی تھی جس کا تذکرہ بعد ازاں طیارہ حادثے کی رپورٹ اور سول ایوی ایشن اور پی آئی اے حکام کے درمیان باہمی الزام تراشیوں کے ذریعے بھی سامنے آئی تھی۔ 
بتایا جاتا ہے کہ پی آئی اے طیارہ جب پشاور سے چترال پہنچا تھا تو راستے میں اس میں فنی خرابی پیدا ہو چکی تھی لیکن پائلٹ احمد منصور کی جانب سے توجہ مبذول کرانے اور طیارہ اڑانے سے انکار کے باوجود انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ پی کے 661 کو اسلام آباد لے کر جائیں۔ وہ روانہ تو ہوئے لیکن اسلام آباد پہنچنے کے بجائے ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کے قریب دونوں انجن بند ہونے سے طیارہ گرکر تباہ ہو گیا اور عملے کے پانچ افراد سمیت 47 افراد ہلاک ہوئے۔ 
اس سے قبل چند ہی برسوں کے دوران اسلام آباد آنے والا ایئر بلیو کا طیارہ اور بھوجا ایئر لائن کا طیارہ حادثے کا شکار ہو کر گر چکے تھے۔ جب معلوم ہوا کہ حویلیاں میں گرنے والے طیارے میں ملک کے نامور نعت خواں اور ماضی کے معروف گلوکار جنید جمشید بھی اسی طیارے میں سفر کر رہے تھے تو دنیا بھر کی توجہ اس جانب مرکوز ہو گئی۔ 
ایسے وقت میں جب طیارے کے پائلٹ طیارے کی فنی خرابی کی بنیاد پر طیارہ اڑانے سے انکار کر رہے تھے عین اس وقت جنید جمشید چترال میں اپنے ساتھی اور سابق کرکٹر سعید انور کے ساتھ مختلف مقامات پر تبلیغی دورے پر تھے۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ آج کے دن کا ایک ایک لمحہ ان کو موت کی طرف لے جا رہا ہے۔ 

طیارہ حویلیاں کے مقام پر گر کر تباہ ہوا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

سات دسمبر کو چار بج کر 16 منٹ پر حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کی سیٹ نمبر تھری سی کی مسافر عائشہ عثمان، جنھوں نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا ہی تھا کہ یہ سفر ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔ 
عائشہ عثمان کا تعلق چترال سے تھا اور وہ قائداعظم یونیورسٹی سے ایم فل کرنے والی اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھیں۔ ایم فل کرنے کے چند دن بعد ہی ان کی شادی کینیڈا میں مقیم اپنے کزن رحیم سے ہوئی جو شادی کے فوراً بعد کینیڈا جا کر اپنی دلہن کے پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہو گئے تھے۔ 
عائشہ کا یہ سفر بھی اسی کوشش کا حصہ تھا کیونکہ وہ شوہر کے کہنے پر ڈگری نکلوانے اپنی مادر علمی قائد اعظم یونیورسٹی آ رہی تھیں۔ ان کی والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اس سفر پر روانہ ہوں اور ان کا یہ سفر آخری ثابت ہوا۔ 
پرواز پی کے 661 کے حادثے کو آج پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ حادثہ جنید جمشید سمیت پائلٹ احمد منصور جنجوعہ اور عائشہ عثمان جیسی کئی قیمتی جانوں کو نگل گیا۔

پی کے661 کے پائلٹ احمد منصور جنجوعہ بھی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے (فوٹو: فیس بک)

عدالتی مداخلت پر جب اس طیارے کے حادثے کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تو کمرہ عدالت میں طیارے کے پائلٹ کی ضعیف والدہ کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کی تصدیق کر رہی تھی۔ 
رپورٹ کے مطابق حادثے کے وقت طیارے کا ایک انجن بند اور دوسرے کا بلیڈ ٹوٹا ہوا تھا۔ طیارے کے انجن کا بلیڈ پشاور سے چترال جاتے ہوئے ٹوٹا تھا۔ دوران پرواز انجن خراب ہونے کے باعث اے ٹی آر طیارے کی رفتار کم ہوئی۔ پروپیلر کی رفتار کم ہونے سے اس کا الیکٹرانک پینل خراب ہوگیا تھا۔ طیارے کے انجن کو 10 ہزار گھنٹے مکمل ہونے پر اوور ہال نہیں کیا گیا تھا۔ 
سول ایوی ایشن ماہرین کے مطابق اے ٹی آر طیاروں میں یہ خرابی پہلی بار دیکھی گئی تھی کیونکہ اس سے پہلے اس نوعیت کی خرابی کبھی رپورٹ نہیں ہوئی تھی۔

شیئر: