Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آئی ایم ایف نے پاکستان میں سستی رہ جانے والی چیزوں کا نوٹس لے لیا‘

بجٹ میں متعدد اشیا پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے (فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان کی قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ضمنی بجٹ پیش کرتے ہوئے ایسی متعدد ٹیکس رعایتیں ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کا مقصد ماضی میں مہنگائی پر قابو پانا بتایا جاتا تھا۔
جمعرات کو ہونے والے ہنگامہ خیز اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان نے جہاں وزیر خزانہ اور وفاقی وزیر شیریں مزاری کی نشست پر جا کر ’آئی ایم ایف ایجنٹ‘ کے نعرے لگائے اور جواب میں جھڑکیاں سنیں، وہیں حکومتی شخصیات نے ضمنی بجٹ کا ایوان کے اندر اور باہر بھرپور دفاع کیا۔
بجٹ اجلاس کے موقع پر کی گئی نیوز کانفرنس میں شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’عام آدمی کے لیے دو ارب روپے کے ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کر رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس دو ارب سے مہنگائی بڑھ جائے گی تو یہ غلط ہے۔ جتنا واویلا مچایا ہوا ہے یہ صرف دو ارب روپے کے ٹیکس ہیں۔‘
شوکت ترین کے پیش کردہ ضمنی بجٹ اور پریس کانفرنس کے دوران ہی سوشل ٹائم لائنز پر بجٹ میں ٹیکس رعایتوں کے خاتمے پر تنقید اور حکومتی اقدامات پر طنز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس موضوع پر گفتگو کرنے والوں کی بڑی تعداد جہاں ضمنی بجٹ سے مہنگائی بڑھنے پر متفق دکھائی دی وہیں بہت سے ٹویپس نے اسے آئی ایم ایف کی فرمائش پر اٹھائے گئے اقدامات سے تعبیر کیا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار طلعت حسین نے ضمنی بجت میں ٹیکس رعایتیں ختم ہونے کو ’عوام کی چیخوں‘ کی وجہ کہا تو لکھا ’پاکستانیو! اور کوئی حکم؟ آپ کا نیال سال نئی چیخوں سے شروع ہو رہا ہے۔ مبارک ہو۔‘

حکومتی حامی ٹویپس ضمنی بجٹ سے مہنگائی نہ بڑھنے کے خیال سے متفق رہے تو ٹیکس بڑھنے کے عمل پر تنقید کرنے والوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔
حماد احمد نے لکھا ’اس میں کوئی ایک ایسی چیز ہے جس سے عام آدمی متاثر ہو۔‘

حکومت کے پیش کردہ ضمنی بجٹ کے بعد نئے سال میں نئے ٹیکسوں سے مہنگائی بڑھنے کا ذکر کرنے والوں نے موقف اپنایا کہ ’اب کوئی گھبرائے یا نہ گھبرائے، کمپنی کو کوئی فرق نہیں پڑنا۔‘
ضمنی بجٹ پیش کرنے کے لیے اسمبلی اجلاس کے دوران حکومتی و اپوزیشن ارکان کے رویے سے نالاں افراد نے اسے ’حکومت اور اپوزیشن کا ملا جلا ناٹک‘ تک کہہ ڈالا۔

مہنگائی سے متعلق بحث میں یہ نکتہ خصوصی توجہ کا مرکز رہا کہ اس سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو افراد اس تاثر سے متفق نہ تھے انہوں نے عام طور پر استعمال ہونے والی اشیا کا ذکر کیا تو ان پر بڑھائے جانے والے ٹیکس کی شرح کا خصوصی ذکر کیا۔
ٹیلی ویژن میزبان اجمل جامی نے عام استعمال کی اشیا میں سے ایک ماچس کو موضوع بنایا تو لکھا ’منی بجٹ کے بعد گویا ماچس کی قیمت کو بھی آگ لگ جائے گی۔‘

سعد مقصود نے ٹیکس بڑھائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں دیے گئے ایک بیان کا حوالہ دیا تو لکھا ’پاکستانی جب مہنگائی ہو تو سمجھ لو تمہارا وزیراعظم چور ہے، یہ بات کون کہا کرتا تھا۔‘ 

شاہد ہاشمی نے موقف اپنایا کہ ’یہ منی بجٹ مڈل کلاس کے کروڑوں افراد کو متاثر کرے گا، اپر کلاس گھٹن زدہ رہے گی، صرف ارب پتی ہی بچ سکیں گے۔‘

لحاظ علی نے بجٹ پر تبصرے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی مختلف تقریروں میں استعمال کیے گئے ایک فقرے  کا سہارا لیا تو لکھا ’وزیراعظم عمران خان نے اپنا وعدہ مکمل طور پر پورا کر دیا کہ میں انہیں رلاؤں گا، منی بجٹ کے بعد پوری قوم رو رہی ہے۔‘

عبدالمجید خان مروت نے بجٹ کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’رعایتیں ختم اور ٹیکس بڑھا کر حکومت منی بجٹ کے ذریعے مہنگائی کا شکار عوام سے سب کچھ نچوڑ رہی ہے۔ یہ کہنا کہ عام آدمی متاثر نہیں ہو گا دھوکہ ہے، یہ کسی ناکسی طریقے سے پوری آبادی کو متاثر کرے گا۔‘

’منی بجٹ‘ پکارے جانے والے ضمنی مالیاتی بل پر تنقید کا سلسلہ بڑھا تو وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے حکومتی موقف دہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ 350 ارب روپے کے ٹیکس میں اصل ٹیکس صرف 71 ارب روپے کا ہے۔

ضمنی بجٹ پیش ہونے کے بعد کی گئی نیوز کانفرنس میں وزیرخزانہ شوکت ترین نے جہاں بجٹ سے مہنگائی بڑھنے کا خیال پیش کرنے والوں پر سخت تنقید کی تھی وہیں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ’آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ سب پر ٹیکس لگایا جائے۔‘

شیئر: