Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کپڑا جو ’دیو‘ نے بنایا تو ’دیوباف‘ کہلایا

'مَخمل' ایک نہایت نرم اور ملائم رُوئیں دار ریشمی کپڑے کا نام ہے (فوٹو: بکسابے)
مجھے اقرار ہے اس نے زمیں کو ایسے پھیلایا 
کہ جیسے بسترِ کم خواب ہو دیبا و مخمل ہو 
سبزہ وگُل سے ڈھکی زمین کو نرم و گداز بچھونوں سے مشابہ قرار دیتا شعر ’اخترالایمان‘ کے حُسن تخیّل کا ترجمان ہے۔ یوں تو خیال نیا نہیں، پرانداز منفرد ہے۔ شعر کیا ہے بزاز کی دُکان ہے، جو ’کم خواب، دیبا اور مخمل‘ کے سے قیمتوں پارچہ جات سے سجی ہے۔ آج ہم اس دکان پر ’ونڈو شاپنگ‘ کریں گے، تاہم اس سے قبل لفظ ’بزاز اور دکان‘ کا ذکر کریں گے۔ 
اردو میں رائج عربی لفظ ’بَزاز‘ کی ایک صورت ’بَزَّاز‘ بھی ہے، جو اپنی اصل کے مطابق ہے، جب کہ ’بَزَّاز‘ کے معنی پارچہ فروش یا کپڑا بیچنے والے کے ہیں۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ پنجاب اور پختونخوا میں آباد ’قوم پراچہ‘ کو بھی اسی ’پارچہ‘ سے نسبت ہے، جو اول ’پارچہ فروشی‘ کی نسبت سے ’پراچہ‘ کہلائی اور پھر ’پراچہ‘ کا عمومی مفہوم ’تجارت پیشہ‘ ہوگیا۔ یوں جو ’کسب‘ تھا وہ ’نسب‘ میں ڈھل گیا۔ 
عربی میں کپڑوں کی ایک خاص قسم کو ’بَزُّ‘ کہتے ہیں، اسی ’بَزُّ‘ سے لفظ ’بِزَّۃُ‘ یعنی کپڑوں کا جوڑا، ’بَزَّاز‘ کپڑا یا پارچہ فروش اور ’بِزَازَۃُ‘ یعنی ’پارچہ فروشی‘ مشتق ہے۔ 
عربی کی راہ سے فارسی میں آنے والے ’بزّاز‘ کے معنی میں ’پارچہ و جامہ فروش‘ یعنی سلّے اور اَن سلّے کپڑے فروخت کرنے والا شامل ہے۔ اس کے علاوہ عام سامان فروش بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے۔ 
اردو میں'’بزاز/ بزّاز‘ اپنے ٹھیٹ عربی معنی میں برتا جاتا ہے، پھر اردو نے اپنے مزاج کے مطابق اس ’بزّاز‘ سے ’بزّاز خانہ‘ اور ’بزّازا‘ کے سے الفاظ بنائے ہیں، جس کے معنی میں کپڑوں کا بازار اور دُکان دونوں شامل ہیں، جب کہ پارچہ فروشی کا پیشہ ’بزازی/ بزّازی‘ کہلاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں ’بزاز‘ کی رعایت سے میر تقی میر کا شعر ملاحظہ کریں: 
بزازکے کو دیکھ کے خرقے بہت پھٹے 
بیٹھا وہ اس قماش سے آکر دُکّان پر 
میر کے اس شعر پر غور کریں تو اس میں زیر بحث موضوع کے اعتبار سے دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ اول یہ کہ انہوں نے دلی کے کرخنداری لہجے کے مطابق ’بزاز‘ کو ’بزازکا‘ باندھا ہے، اور دوم لفظ ’دکان‘ کو اس کی اصل کے مطابق ’دُکَّان‘ برتا ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اگر شعر میں ’دُکَّان‘ کو بغیر تشدید کے باندھا جاتا تو شعر وزن سے گر جاتا۔  
’دُکَّان‘ عربی الاصل لفظ ہے، جس کی جمع ’دَكَاكِيْنُ‘ ہے۔ اردو لغات میں اپنی اصل کے مطابق ’کاف‘ پر تشدید کے ساتھ درج ہونے والے ’دُکَّان‘ کو روز مرہ میں تشدید کے بغیر ’دُکان‘ بولا اور لکھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو میں ’مکان‘ کی جمع ’مکانات‘ کے مطابق ’دکان‘ کی جمع ’دکانات‘ بھی دیکھنے میں آتی ہے، جو درست نہیں ہے۔ 

اردو میں عام طور پر رائج ’دکان‘ کا املا غلط طور پر ’دوکان‘ بھی کیا جاتا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

اردو میں عام طور پر رائج ’دکان‘ کا املا غلط طور پر ’دوکان‘ بھی کیا جاتا ہے، جو 'کان' کے 'دو' ہونے کا اعلان تو ہوسکتا ہے، مگر 'دُکان' بمعنی 'ہاٹ یا ہٹّی' نہیں ہوسکتا۔ اب اس 'دکان' کی رعایت سے علیگڑہ، انڈیا کے سرفراز خالد کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں: 
اک تو نے ہی نہیں کی جنوں کی دکان بند 
سودا کوئی ہمارے بھی سر میں نہیں رہا 
بات قیمتی کپڑوں کی دکان سے چلی اور دکانِ جنوں تک پہنچ گئی، ایسے میں واپس موضوع پر آتے اور 'کم خواب، دیبا اور مخمل' کی بات کرتے ہیں۔ 
’کم خواب‘ ایک قیمتی ریشمی کپڑا ہے، جو مختلف اقسام کا ہوتا ہے، بعض میں بادلے کے تار تانے بانے میں ہوتے ہیں، جب کہ بعض میں زربفت کے تار استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس بیش قیمت کپڑے کا فارسی املا ’کمخواب‘ اور ’کمخاب‘ ہے۔ ’اردو اِملا‘ والے رشید حسن خان کے مطابق اردو میں املا ’کم خواب‘ درست ہے۔ وجہ ترجیح یہ ہے کہ یہ ترکیب ’کم‘ یعنی قلیل اور ’خواب‘ بمعنی ’رُواں‘ سے مرکب ہے، یوں اس کے معنی ’کم روئیں والا‘ کے ہیں۔ اپنی اسی خاصیت کی وجہ سے یہ کپڑا ’کم خواب‘ کہلاتا ہے۔  
جہاں تک ’دیبا‘ کی بات ہے، تو یہ بھی ایک قیمتی اور نفیس کپڑے کا نام ہے۔ اس کی تیاری میں ابریشم کے علاوہ گلِ داؤدی کی قسم سے ایک پودے ’قلپ لب‘ کے ریشوں کو کام میں لایا جاتا ہے۔ اول اول جب یہ کپڑا بن کر تیار ہوا تو انسانی عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ اس قدر باریک و نفیس کپڑا انسانی ہاتھ کی کرشمہ سازی ہے، یہی وجہ تھی کہ اس کپڑے کو ’دیوباف‘ یعنی ’جنّوں کا بُنا ہوا‘ کہا گیا، بعد ازاں یہی ’دیوباف‘ تخفیف کے سبب ’دیبا‘ پکارا گیا۔ 
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ لفظ ’دیباچہ‘ دراصل اسی ’دیبا‘ کی تصغیر ہے، یوں تو اس کے لفظی معنی ’پارچہِ دیبا کا ٹکڑا‘ ہیں، تاہم اصطلاح میں ’دیباچہ‘ اُس تحریر کو کہتے ہیں جو کسی کتاب کے آغاز میں درج ہو اور جس میں نفسِ مضمون وغیرہ سے متعلق یا دوسری ضروری باتیں بطور تعارفِ کتاب کے بیان کی گئی ہوں۔  

اگر ’دیباچہ‘ کا لفظ ’دیبا‘ سے نکلا ہے تو پھر اس کا کتاب سے کیا تعلق ہے؟ (فوٹو: پکسابے)

اب سوال یہ ہے کہ اگر ’دیباچہ‘ کا لفظ ’دیبا‘ سے نکلا ہے تو پھر اس کا کتاب سے کیا تعلق ہے؟ تو عرض ہے کہ عہدِ قدیم میں کتابوں کا سرِورق دلکش و حسین نقاش و نگار سے آراستہ کیا جاتا تھا، جو جاذب نظر ہونے کی رعایت سے ’دیباچہ‘ کہلاتا تھا۔ تاہم بعد میں ’دیباچہ‘ کا لفظ سرِورق کے بجائے آغاز کتاب میں درج تعارفی تحریر کے لیے مختص ہوگیا۔ 
فارسی کا ’دیبا اور دیباچہ‘ جب فارسی سے عربی زبان میں داخل ہوئے تو مخصوص لہجے کے سبب سے بالترتیب ’دیباج‘ اور ’دیباجہ‘ پکارا گیا۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں اور ’مخمل‘ کا ذکر کریں، دیباچہ کی رعایت سے دلی، انڈیا کے شجاع خاور کا شعر ملاحظہ کریں جو کہہ گئے ہیں:  
اس نے مری کتاب کا دیباچہ پڑھ لیا 
اب تو کبھی کبھی کی ملاقات بھی گئی 
’مَخمل‘ ایک نہایت نرم اور ملائم رُوئیں دار ریشمی کپڑے کا نام ہے، جو سوتی بانے پر تیار کیا جاتا ہے، اس کی بُنائی میں نوعیت کے لحاظ سے رُواں چھوٹا بڑا رکھا جاتا ہے۔ اس باب میں بتانے والی بات یہ ہے کہ ’مخمل‘ اصلاً عربی زبان سے متعلق ہے اور عربی میں یہ ’میم‘ پر پیش کے ساتھ ’مُخمل‘ پکارا جاتا ہے۔ 

شیئر: