Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کو ’نیا لاہور‘ بسانے کے منصوبے میں ناکامی کیوں ہوئی؟

عدالتی حکم کے مطابق کسانوں سے زرعی زمین لینا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
 تحریک انصاف کا اب تک کا سب سے بڑا اقتصادی منصوبہ ریور راوی پراجیکٹ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت نے مکمل بند کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔  
اس منصوبے کا سنگ بنیاد خود وزیر اعظم عمران خان نے رکھا تھا اور ان کے ہر دورہ لاہور میں ان کو منصوبے کی پیشرفت سے بھی آگاہ کیا جاتا تھا۔  
راوی کے کنارے نیا شہر بسانے کے لیے ایک اتھارٹی بھی بنائی گئی تھی جس کو راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (رووڈا) کا نام دیا گیا۔  
عدالتی حکم کے مطابق ’کسانوں سے زرعی زمینیں لینا آئین کے آرٹیکل 40 اے کی خلاف ورزی ہے۔‘
اپنے حکم میں لاہور ہائی کورٹ نے رووڈا کو پنجاب حکومت سے لیے گئے 5 ارب روپے بھی اگلے دو مہینوں میں واپس کرنے کا حکم دیا ہے۔  
رووڈا ترمیمی ایکٹ کی بعض شقیں عدالت نے آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دی ہیں۔  

راوی ریور پراجیکٹ ہے کیا؟ 

حکمران جماعت تحریک انصاف نے سال 2020 میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے مضافات میں دریائے راوی کے کنارے ایک نیا شہر بسانے کا اعلان کیا۔  
یہ شہر ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر بسایا جانا تھا۔ دریا کنارے اس نئے شہر کی لمبائی 46 کلومیٹرتک ہونی تھی اور اس کو دنیا کا سب سے بڑا ریور فرنٹ کہا جا رہا تھا۔
اس کا پراجیکٹ ڈیزائن اور فیزیبلٹی سنگاپور کی ایک فرم ’مین ہارڈت‘ سے بنوائی گئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے راوی منصوبےکا سنگ بنیاد اگست 2020 میں رکھا۔ فوٹو: اے ایف پی

حکومت کا ماننا ہے کہ اس منصوبے سے 8 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری پاکستان آسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے پنجاب حکومت نے راوی اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی جس کے ذمہ اس پراجیکیٹ کی تکمیل تھی۔ اس اتھارٹی نے اپنے قیام کے فوری بعد ہی اس منصوبے کےلیے بڑے پیمانے پر زمین حاصل کرنا شروع کی۔ 
وزیر اعظم عمران خان نے منصوبےکا سنگ بنیاد 20 اگست 2020 کو رکھا تھا۔  
راوی کے کنارے آبادیوں کو بھی گھر خالی کرنے کے نوٹس دے دیے گئے تھے جبکہ اس علاقے میں وسیع زرعی زمینوں کو حاصل کرنے اور سو کے قریب دیہات کو بھی خالی کرنے کا کام شروع کیا گیا۔  
یہیں سے اس پراجیکٹ کے خلاف کسانوں اور علاقہ مکینوں نے احتجاجی اور قانونی جنگ کا آغاذ کیا۔ نہ صرف احتجاجی مظاہرے کیے گئے بلکہ لاہور لائی کورٹ میں درجنوں کی تعداد میں منصوبے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئیں۔  
رووڈا نے تاہم اپنا کام جاری رکھا اور اب تک پانچ ہزار ایکڑ سے زائد زرعی اراضی کسانوں سے حاصل کی جا چکی ہے۔  
اس پراجیکٹ کے خلاف بننے والی کسان ایکشن کمیٹی کے سربراہ میاں مصطفیٰ رشید(جو عدالت میں ایک درخواست گزار بھی ہیں) نے اردو نیوز کو بتایا کہ عدالت نے کسانوں پر رحم کیا ہے اور اس دور کی نئی ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہمیں نجات دلائی ہے۔
’کیا آپ سوچ سکتے ہیں کسانوں سے 1984 کے لینڈ ایکوائزیشن قانون کے تحت یہ ہزاروں ایکٹر اراضی 1475 روپے فی مرلہ لے رہے تھے۔ اور جبر سے پولیس کو استعمال کر کے محاصروں میں یہ زمین ہتھیا رہے تھے وہ سب ناقابل یقین تھا۔‘

منصوبے کی فیزیبلٹی سنگاپور کی ایک فرم سے کروائی گئی ہے۔ فوٹو: رووڈا

جب ان سے پوچھا کہ کئی کسانوں نے تو اپنی مرضی سے بھی زمینیں دی تھیں تو مصطفیٰ رشید کا کہنا تھا ’یہی تو ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ جب حکومت نے دیکھا کہ کسان اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں تو انہوں نے کچھ کسانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور ان کے آنے والے پراجیکٹ میں پرکشش کمرشل مراعات آفر کیں۔ اور کچھ لوگ اس بہکاوے میں آگئے لیکن اکثریت نہیں آئی۔ آپ اندازہ کریں کہ ڈیڑھ ہزار روپے کا یہ ایک مرلہ انہوں نے خود آگے دس دس لاکھ روپے کا بیچنا ہے۔ اس سے بڑی لوٹ مار تو ہو ہی نہیں سکتی۔‘  
ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور کا کہنا ہے کہ اس عدالتی  فیصلے پر حکومت کی قانونی ٹیم نے مشاورت شروع کر دی ہے، اس فیصلے کو چیلنج کرنے یا عدالتی حکم کے مطابق قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا جائے گا۔
حسان خاور نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ’عدالت نے رووڈا ایکٹ کی کچھ مخصوص شقوں کو ختم کیا ہے۔ اتھارٹی اپنی جگہ پر موجود ہے کوشش کریں گے کہ عدالتوں کا اعتراض ختم ہو۔‘  
انہوں نے کہاکہ ’یہ منصوبہ وزیر اعظم کے وژن کے مطابق قوم اور ملک کے سنہرے مستقبل کا آغاز ہے۔ نئے شہروں کی ضرورت ہے تاکہ آبادی کے مسائل سے نمٹا جا سکے۔ اگر نئے شہر ایک نئے معاشی سفر کا آغاز بھی ثابت ہوں تو اس سے اچھا منصوبہ کیا ہو سکتا ہے۔‘  

شیئر: