Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ اور وَن پیج

رپورٹ کے مندرجات نے خود ساختہ ریاست مدینہ کے بیانیے سے متفق ہونے سے قطعاً انکار کردیا (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی دھماکہ خیز رپورٹ آنے سے پہلے ہم نے بارہا یہ خبر نما افواہ سنی کہ ون پیج اب ون پیج نہیں رہا۔ ’حکام بالا‘ کو موجودہ حکومت کی بیڈ گورننس، نااہلی اور نالائقی نے بہت مایوس کیا۔ انہوں نے جو امیدیں عمران خان سے لگائی تھیں وہ سب بکھر گئیں۔ جو خواب نئے ’کرپشن فری پاکستان‘ کے دیکھے تھے وہ سب چکنا چور ہوگئے۔
اختلافات کی خبریں بھی کھل کر سامنے آنے لگیں۔ اس کے بعد عمران کی پارٹی میں ’کچھ لوگ‘ سامنے آنے لگے۔ کبھی لگتا تھا کہ تحریک عدم اعتماد آئے گی، کبھی لگتا تھا کہ عمران خان پر اتنا دباؤ پڑ جائے گا کہ وہ خود ہی اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ کچھ لوگوں کو یہ بھی دھڑکا لگا ہوا تھا کہ مارشل لا ہی نہ لگ جائے۔ کچھ صدارتی نظام کی باتیں کرنے لگے۔ عمران خان بھی کبھی کہتے کہ اگر مجھے نکالا تو میں پہلے سے زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا۔ کبھی مینار پاکستان بھرنے کے دعوے کرنے لگے۔
یہ امید و بیم کا سلسلہ کچھ ماہ سے چل رہا تھا۔ اپوزیشن اس لمحے کا انتظار کررہی تھی کہ ایک صفحے پر جمع قوتیں الگ الگ ہوں تو لانگ مارچ کا فیصلہ کریں۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں تو یوں لگا جیسے ایک پیج ختم ہوگیا۔ پھر فنانس بل اور سٹیٹ بینک ترمیمی بل کا مرحلہ آیا تو پھر یوں لگا جیسے پھٹا  پیج پھر سے جُڑ گیا۔  
’حکام بالا‘ اور حکومت کی یہ کشمکش جاری تھی کہ اچانک ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سامنے آگئی۔ اس رپورٹ کے آنے سے تحریک انصاف کا پانچ سال سے قائم بیانیہ ایک لمحے میں زمیں بوس ہوگیا۔ کرپشن، کرپشن کی کہانی دفن ہوگئی۔ عمران خان کے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے حق میں سارے سابقہ بیانات منظرعام پر آنا شروع ہوگئے۔

اس رپورٹ کے آنے سے تحریک انصاف کا پانچ سال سے قائم بیانیہ ایک لمحے میں زمیں بوس ہوگیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ گذشتہ پانچ سال کی سب سے بڑی خبر ہے کیونکہ گذشتہ پانچ برس میں 22 کروڑ عوام کی کھوپڑیوں کو کھول کھول کر ان میں کرپشن کا بیانیہ ٹھونسا گیا تھا۔ انہیں سبق پڑھایا گیا کہ نواز شریف اور آصف زرداری ہی کرپٹ ہیں۔ اب ملک بدل گیا ہے۔ عمران خان وزیر اعظم ہیں اور اب بقول عطا اللہ عیسیٰ خیلوی ’اچھے دن آئیں گے۔‘
تاہم رپورٹ کے مندرجات نے اس خود ساختہ ریاست مدینہ کے بیانیے سے متفق ہونے سے قطعاً انکار کردیا۔ اس رپورٹ میں وضاحت سے یہ بتایا گیا کہ نہ صرف موجودہ حکومت کے دور میں سب سے زیادہ کرپشن ہوئی ہے بلکہ ہم کرپشن میں تاریخ کے کم تر درجے پر فائز ہو گئے ہیں۔
پہلے ہمارا نمبر اگر 124 تھا تو اب ہم نیچے گرتے گرتے 140کے درجے پر متمکن ہو چکے ہیں۔ اس رپورٹ کے غیر جانبدار ہونے میں کوئی شک اس لیے نہیں کہ یہ ایک انٹرنیشنل ادارے کی سنجیدہ رپورٹ ہے جس کو دنیا کے تمام ممالک میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ دیکھا جاتاہے۔

یہ رپورٹ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے اہم ادارے کی ہے جسے دنیا کے تمام ممالک تسلیم کرتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس میں قابل قدر بین الاقوامی اداروں کی تحقیق شامل ہے۔ ایسے ادارے جنہیں نہ ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے نہ ہی انہیں زبردستی شمالی علاقہ جات کی سیر پر بھیجا جاسکتا ہے۔  
اگر رپورٹ اس بات تک ہی ہوتی کہ موجودہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے کرپٹ حکومت ہے تو پھر بھی کوئی بات بنا لی جاتی۔ اس رپورٹ نے مزید یہ ظلم ڈھایا کہ واضح طور پر بتا دیا کہ نواز شریف کا دور وہ دور تھا جس میں سب سے کم کرپشن ہوئی۔ یہ وار حکومت کو مزید گہرا لگا۔ وہ ساری باتیں جو پانچ سال یہاں دہرائی جارہی تھیں وہ سب اب لطیفہ بن گئیں۔ وہ جو نواز شریف کی کرپشن کے قصے سناتے نہ تھکتے تھے اب وہ مذاق بن گئے۔  
اب حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کس کو گالی دے کس کے خلاف ’ٹرینڈز بنوائے۔‘

اب تو عمرانی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے دور کی کرپشن کے انڈیکس کو بھی مات دے دی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان اپنی برسوں پرانی تقریر میں کس طرح ترمیم کریں۔ کس طرح اس بات کا اعتراف کریں کہ بین الاقوامی ادارے جان گئے ہیں کہ سب سے کرپٹ ہم اور نواز شریف واقعی شریف تھا۔ حالت یہ ہے کہ اب تو عمرانی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے دور کی کرپشن کے انڈیکس کو بھی مات دے دی ہے۔ 
 اب کرپشن کا نام لیتے ہیں تو خود کو موردِ الزام ٹھراتے ہیں اور اگر کرپشن کا نام نہیں لیتے تو کہنے کو کچھ نہیں۔ کارکردگی کے نام پر دکھانے کو کچھ نہیں ہے۔ اب نیب کس کے خلاف کارروائی کرے؟ اب کس کو جیل میں ڈالا جائے؟ کس کو ای سی ایل پر رکھا جائے؟ کس کے خلاف میڈیا ٹرائل کیا جائے؟  
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بعد حکومت کے ہاتھ سے نہ صرف سب سے بڑا ہتھیار نکل گیا بلکہ اب کرپشن کی اسی توپ کا رخ بھی انہی کی طرف ہوگیا ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کی محبت کے گیت گانے والے جانتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی اس طرح کی رپورٹس کی اہمیت سے واقف ہیں۔ پاکستان میں میڈیا کو ڈرا دھمکا کر سمجھایا جاسکتا ہے مگر انٹرنیشنل اداروں کو کون سمجھائے گا۔

خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں تو یوں لگا جیسے ایک پیج ختم ہوگیا (فائل فوٹو: آئی ایس پی آر)

یہاں پر تو  یہ بات کی جاسکتی ہے کہ نواز شریف کے ہاتھوں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بک گئی ہے؟ یہ کافروں کا ادارہ ہے جو عمران خان سے خوف زدہ ہے؟ یہ سارے حربے اب بے سُود ہیں کیونکہ یہ رپورٹ ایک اہم بین الاقوامی ادارے کی ہے جسے دنیا کے تمام ممالک تسلیم کرتے ہیں۔  
بات ون پیج سے شروع ہوئی تھی۔ قارئین کو یاد ہی ہوگا کہ الیکشن سے پہلے کرپشن کے نام پر ’حکام بالا‘ بھی نواز شریف اور ان کی کابینہ کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ مگر اب بس دیکھنا یہ کہ دیکھنے والے نئی صورتِ حال کو کیسے دیکھتے ہیں۔ 

شیئر: