Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان، کئی ماہ بعد چند یونیورسٹیاں کھل تو گئیں لیکن طالبات بہت کم

طالبان نے کہا ہے کہ انہیں خواتین کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان میں پہلی مرتبہ کچھ سرکاری یونیورسٹیاں کھول دی گئی ہیں جہاں بہت محدود تعداد میں لڑکیوں کو بھی جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے اگست میں اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان کی چند یونیورسٹیاں کھولی گئی ہیں۔
طالبان حکام نے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی کلاسز کا الگ الگ انتظام کیا جائے گا۔
اس سے قبل یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید خواتین تعلیم سے محروم ہو جائیں گی جیسا کہ طالبان کے پہلے دور حکومت میں ہوا تھا۔
خیال رہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کے سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کو اس وقت بند کر دیا گیا تھا جب طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تھا۔
چند دن قبل طالبان کے ایک وفد کی ناروے میں مغربی حکام سے ملاقات ہوئی جہاں طالبان پر خواتین کے حقوق کی فراہمی کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا جس کے نتیجے میں بدھ کو تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
ننگرہار یونیورسٹی میں قانون اور سیاسیات کی طالبہ زرلاشتہ حقمل نے کہا کہ ’یہ ہماری لیے خوشی کا لمحہ ہے کہ ہماری کلاسز شروع ہو گئی ہیں۔ لیکن ہمیں اب بھی خدشہ ہے کہ طالبان کہیں یہ بند نہ کر دیں۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ اس ماہ کے آخر میں مزید کچھ یونیورسٹیاں بھی دوبارہ کھلنا شروع ہو جائیں گی۔
یونیورسٹی کے ایک ملازم کے مطابق لڑکوں اور لڑکیوں کی کلاسز الگ الگ ہو گئیں جس میں لڑکیوں کو صبح اور لڑکوں کو شام میں پڑھایا جائے گا۔
اے ایف پی کے نمائندے نے بدھ کو صرف چھ خواتین کو برقعہ پہنے ہوئے لغمان یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔
طالبان نے کہا ہے کہ انہیں خواتین کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ کلاسز الگ الگ ہوں اور نصاب اسلامی قوانین کے مطابق ہو۔
واضح رہے کہ طالبان حکام نے خواتین پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں اور خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے بھی روک دیا گیا ہے۔
دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ مارچ کے آخر تک لڑکیوں کے تمام سکول کھول دیے جائیں گے۔
بین الاقوامی امداد پر بندش نے افغانستان میں ایک انسانی بحران کو جنم دیا ہے جو پہلے ہی کئی دہائیوں کی جنگ سے تباہ ہو چکا ہے۔
ابھی کسی بھی ملک نے طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

شیئر: