Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باپ پارٹی کا وفاقی حکومت کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کا عندیہ، مزید وزارتیں مانگ لی

بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر کہدہ بابر کے مطابق وفاقی کابینہ میں بلوچستان کی نمائندگی بہت کم ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فیس بک)
پاکستان کے وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے وفاقی کابینہ میں مزید وزارتیں مانگ لی ہیں۔
بی اے پی نے کہا ہے کہ پارٹی وفاق میں پی ٹی آئی کی غیر مشروط طور پر حمایت کرکے تھک چکی ہے اس لیے اب پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی۔
باپ پارٹی کے رہنماؤں کا اہم اجلاس گزشتہ شب کوئٹہ میں ہوا جس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور پارٹی کے سینیٹ، قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے شرکت کی۔
ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ اجلاس میں پارٹی کے نئے صدر کے لیے کہدہ بابر کا نام تجویز کرنے کے علاوہ وفاق میں مزید وزارتیں لینے کے لیے عمران خان کی حکومت سے احتجاج کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر کہدہ بابر نے اردو نیوز کو بتایا کہ وفاقی کابینہ میں بلوچستان کی نمائندگی بہت کم ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی 12 سینیٹرز اور پانچ ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ تحریک انصاف کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ہے۔ ہم نے شروع سے ہی موجودہ حکومت کی غیر مشروط طور پر حمایت کی ہے لیکن وفاقی کابینہ میں بی اے پی کو اس کا جائز حق نہیں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومتوں میں وفاقی کابینہ میں بلوچستان کے چار سے پانچ نمائندے ہوتے تھے مگر اس کابینہ میں بلوچستان سے صرف ایک وزیر بی اے پی کی زبیدہ جلال ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کم از کم پانچ وفاقی وزرا یا وزرا مملکت بلوچستان سے ہونے چاہیے ان کا تعلق بی اے پی سے ہو یا تحریک انصاف سے۔
ان کا کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے اگر اختر مینگل صاحب کو بھی وزیر بنایا جاتا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں۔
کہدہ بابر کے مطابق ہمارا مطالبہ ہے کہ وزارت تجارت، انڈسٹریز اور پورٹ اینڈ شپنگ جیسی وزارتیں بلوچستان کو دی جائیں جس کے ذریعے بلوچستان میں ہم لوگوں کو ملازمتیں اور ترقیاتی منصوبے دے سکیں۔
باپ پارٹی کے اجلاس کے بعد سرکاری طور پر جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’اجلاس میں پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا۔ ارکان نے مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو وزیراعظم عمران خان کو پارٹی تحفظات سے آگاہ کریں اگر مطالبات پورے نہ کیے گئے تو بی اے پی آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔‘

بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی جام کمال کے بعد عبدالقدوس بزنجو کے گروپ میں بھی اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)

کہدہ بابر کا کہنا تھا کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں تحریک انصاف سے کئی بار اس معاملے پر بات کی گئی مگر ہم سخت احتجاج اس لئے نہیں کرسکیں کہ پہلے جام کمال تھے اور اب عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ ہیں۔ دونوں کا رویہ تبدیل ہے۔ جام کمال نے اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا مگر عبدالقدوس بزنجو وفاق میں موجود اپنی جماعت کے پارلیمنٹرینز کے ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔
تجزیہ کار شاہد رند کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے آپس میں اور حکومت کے اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق سے رابطے ہورہے ہیں اس صورتحال میں مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت مشکل میں ہے اس لیے بی اے پی ٹائمنگ کا بہتر استعمال کرکے بارگینگ کی پوزیشن میں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ باپ پارٹی کے انتخابات قریب آرہے ہیں اس لیے پارٹی کے سرکردہ رہنما انتخابات میں حمایت کے حصول کے لیے اپنی جماعت کے پشتون پارلیمنٹرینز میں سے کسی ایک کو فاقی کابینہ میں ایڈجسٹ کرانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں بلوچ علاقوں کی نمائندگی زبیدہ جلال کی صورت میں موجود ہے مگر کوئی پشتون رہنما کسی عہدے پر موجود نہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی جام کمال کے بعد عبدالقدوس بزنجو کے گروپ میں بھی اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ ظہور احمد بلیدی نے حزب اختلاف کو 30 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے پر وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی سخت مخالفت کی ہے جس کے بعد سینئر صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی سے ہٹانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔
عبدالقدوس بزنجو گروپ کی جانب سے جام کمال کے مقابلے میں ظہور احمد بلیدی کا پارٹی کو سربراہ اورصوبائی پارلیمانی لیڈر مقرر کیا گیا تھا۔

عبدالقدوس بزنجو گروپ کی جانب سے جام کمال کے مقابلے میں ظہور احمد بلیدی کو پارٹی کا سربراہ اورصوبائی پارلیمانی لیڈر مقرر کیا گیا تھا۔ (فوٹو: فیس بک)

ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو گوادر سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کہدہ بابر کو پارٹی کا نیا صدر بنانا چاہتے ہیں۔
کہدہ بابر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اگلے صدر کے عہدے کے لیے امیدوار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بی اے پی کے41 میں سے28 پارلیمنٹرینز نے خود ان کے پاس آکر پارٹی صدارت کے لیے حمایت کی ہے۔
تجزیہ کار شاید رند کے مطابق جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد سے بلوچستان عوامی پارٹی شدید بحران میں ہیں جس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد ہی نکلے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہیے کوئی بھی گروپ کامیاب ہو انٹرا پارٹی کے انتخابات کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کی موجودہ ہیئت میں تبدیلی آسکتی ہے۔

شیئر: