Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہوش بھٹی کا بلاگ: لہور لہور اے لیکن رضوان تے ملتان سلطان دے کول اے

سمجھ سے باہر ہے کہ آخر کراچی کنگز پر کوئی کیا محنت بھی نہیں کرنا چاہتا؟ (فوٹو: اے ایف پی)
پی ایس ایل لاہور آ چکا ہے اور اب تک کے میچز سے ظاہر ہو رہا ہے کہ کراچی نے مسلسل آٹھ شکستوں کے بعد نہ جیتنے کا روزہ جمعے کو توڑ دیا یعنی کہ افطاری کر لی۔
فی الحال تو افطاریاں ملتان سلطان کی چل رہی ہیں جو اپنا پہلا میچ تو ہارے لاہور میں، لیکن اس کے بعد سے وہ ہر ٹیم کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو لاہور کی ٹریفک آپ کے ساتھ کرتی ہے یعنی ذلیل کرنا۔
لاہور میں میچ اگر سات بجے ہے تو ٹریفک ایک بجے ہی ایسے پھنستی ہے جیسے آپ گردشی قرضوں میں پھنسے ہوں، جن میں سے آپ باہر نہیں آ سکتے، لیکن اب پی ایس ایل گھر میں ہونے کی خوشی بھی ہے سو انسان کو ٹریفک کا زہر پینا پڑتا ہے۔ ٹریفک تو خیر ہے لیکن لاہوریوں نے سٹیڈیم میں رونق لگا دی ہے۔
میں نے لاہور میں بہت سے میچز سٹیڈیم میں دیکھے ہیں اور ایک بات ہمیشہ نوٹ کی کہ بے شک اپنی ٹیم ہار بھی رہی ہو تو لاہوریے کہتے ہیں ’کوئی گل نئیں، چلو کج کھا پی لیئے۔‘
ان کے کرکٹ کے جذبے کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اِس حکومت کا کوئی کچھ نہیں کر سکتا بے شک وہ پٹرول 500 روپے کا کر دے۔
اب تک لاہور میں لاہور قلندرز نے کوشش کی ہے کہ وہ نہ ہی ہاریں۔ لاہور کی گیم کے دوران مداحوں کا شور سن کر اچھے وقتوں کی یاد آ گئی، جب ایسا ہی شور انڈیا اور پاکستان کے میچز میں ہوا کرتا تھا۔
اب جب میں دُکھی ہو ہی گئی ہوں، تو یہ بھی بتاتی چلوں کہ پی ایس ایل اِس بار دِل توڑ بھی بہت رہا ہے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے شاداب خان اور ذیشان ضمیر کی انجری سے لے کر الیکس ہیلز کے پی ایس ایل چھوڑ کے جانے تک، نسیم شاہ کی خوبصورت بولنگ کے باوجود کوئٹہ کی ہار سے لے کر کراچی کی ہار میں بابر اعظم کو افسردہ ہوتے دیکھنے تک، پی ایس ایل ہمارے جذبات سے ایسے ہی کھیل رہا ہے جیسے بجلی کی لوڈ شیڈنگ سارا دن آنکھ مچولی کھیلتی ہے۔
آپ اک لمحے خوش ہو تو دوسرے ہی لمحے اداس، کہ اب بجلی چلی گئی ہے تو مائیکرو ویو کیسے چلے گا۔
کچھ پی ایس ایل کے ستارے جو اب تک اسی طرح چمک رہیں ہیں جیسے دو کروڑ روپے دیکھ کر ہماری آنکھیں چمکتی ہیں۔ ان میں شامل ہیں شاداب خان، نسیم شاہ، حارث رؤف، راشد خان، وِل سمیڈ، رضوان، عمران طاہر، شعیب ملک، فخر زمان اور زمان خان۔
اسی طرح وِل سمیڈ جو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے کھیلتے ہیں، وہ کبھی 91 رنز بنا رہے ہیں تو کبھی 99، لیکن کوئٹہ کی ٹیم ان کے رنز کا کچھ نہیں بنا پائی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ چنے پکانا چاہ رہے ہوں اور آپ پانی ڈالتے جائیں اور وہ نہ گلیں، کیوںکہ ان میں میٹھا سودا نہیں ڈالا گیا۔

پشاور زلمی کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ لاہور میں آ کر جیتے ہی جا رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہاں پشاور زلمی کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ وہ لاہور میں آ کر جیتے ہی جا رہے ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر لاہور قلندرز کو اپنی پرانی فارم یاد آ گئی تو زلمی آگے جا سکتی ہے۔ یاد رکھیں، لاہورٹیم چاہے تو اکیلے سٹیڈیم میں اپنے آپ سے بھی ہار سکتی ہے۔ بلاوجہ ہارنے والے کو لاہور قلندرز کہتے ہیں۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کے کھلاڑیوں کا مسئلہ تو چل رہا ہے لیکن ان کے اعظم خان نے مار دھاڑ کا ایک الگ ڈیپارٹمنٹ کھول لیا ہے۔ اسلام آباد کا ٹیم ورک ان کو جتوا جاتا ہے اور تو اور آصف علی نے بھی وکٹیں لینا شروع کر دی ہیں۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی طرف سے نسیم شاہ نے اپنی بولنگ کے جوہر دکھانا شروع کیے ہوئے ہیں، جن پر عمر گل نے کافی محنت کی ہے اور وہ محنت نظر بھی آ رہی ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ آخر کراچی کنگز پر کوئی کیا محنت بھی نہیں کرنا چاہتا؟ معاف کیجیے گا لیکن کراچی کنگز کی مسلسل ہار میرے دماغ سے نکلتی نہیں۔
اِس سب میں بین کٹنگ اور سہیل تنویر کا قصہ کیسے بھول سکتے ہیں۔ ان دونوں کا پچھلے چار سال سے پَھڈّا چل رہا تھا جس کا انہوں نے اب غصہ نکالا اور ان پر جرمانہ بھی ہوا۔

’بلاوجہ ہارنے والے کو لاہور قلندرز کہتے ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے پھڈے سے مجھے یاد آیا کہ جب میرے گھر والے کویت سے لاہور شفٹ ہوئے تو پہلے دن تندور سے روٹی لانا تھی، اس روٹی لانے پر میرے دونوں بھائیوں کی لڑائی ہوئی کہ آخری بار کویت میں روٹی کون لایا تھا۔ کچھ ایسا ہی پَھڈّا کٹنگ اور سہیل تنویر میں ہوا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا لاہور اپنے اگلے سارے میچز ہار سکتا ہے؟ کیا اسلام آباد شاداب کے بغیر چل سکتے ہیں؟ کیا پشاور زلمی ٹاپ تھری میں آ سکتی ہے؟ مجھے تو نہیں پتہ، لیکن میں نے بس ایک بات کہنی ہے، جو بھی ہو، بس کسی کی گاڑی ٹریفک میں نہ پھنسے۔۔۔ آمین

شیئر: