Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان اسمبلی میں باپ پارٹی کے اراکین آپس میں الجھ پڑے

نور محمد دمڑ نے کہا کہ سلیم کھوسہ کے تحفظات دور کیے جائیں گے (فوٹو ٹوئٹر)
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین آپس میں ہی الجھ پڑے اورایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال کیا۔ 
ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیرصدارت اجلاس میں نصیرآباد سے تعلق رکھنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے میر سلیم کھوسہ نے اپنے حلقہ انتخاب کے ترقیاتی فنڈز میں کرپشن اور سرکاری ملازمتیں فروخت کرنے کا الزام لگایا۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں سرکاری ملازمتیں فروخت کی جارہی ہیں۔ اگر ملازمتیں فروخت ہی کرنی ہیں تو کم از کم انہی اضلاع کے لوگوں کو فروخت کی جائیں باہر کے لوگوں کو نہ دی جائیں۔ 
ان کا کہنا تھا سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت کس سمت جارہی ہے اپوزیشن گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران تو ہر مسئلے پر بات کرتی تھی مگر اب اپوزیشن ارکان نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
سلیم کھوسہ نے پٹ فیڈر کیلنگ کی دی سلٹنگ کے فنڈز کے غلط استعمال کا معاملہ اٹھایا تو نصیرآباد سے ہی تعلق رکھنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی اورصوبائی وزیر محمد خان اور ان کے درمیان تند و تیز اور تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ دونوں اراکین نے اس موقع پر ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ بھی استعمال کیے۔ بعد ازاں صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی کی مداخلت نے بیچ بچاؤ کرایا۔ 
صوبائی وزیر خزانہ نور محمد دمڑ نے کہا کہ سلیم کھوسہ کے تحفظات دور کیے جائیں گے وہ صرف الزامات لگانے کے بجائے محکمے اور افسر کی نشاندہی کریں جو کرپشن میں ملوث ہے۔
اجلاس میں اراکین نے اسلام آباد میں لاپتہ طالبعلم کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والے بلوچستان کے طلبہ پر پولیس تشدد کی بھی مذمت کی اور کہا کہ لاہور اور اسلام آباد میں بلوچستان کے طلبا کے ساتھ بد سلوکی ہورہی ہے صوبائی حکومت اس معاملے کو وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھائے۔ 
اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ کی بلوچستان پولیس اور لیویز فورس کی تنخواہیں بڑھانے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ ایوان نے بی این پی کے رکن ثناء بلوچ کی رخشان ڈویژن میں یونیورسٹی قائم کرنے کی قرارداد بھی منظور کی۔
ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ چاغی، نوشکی اور خاران پر مشتمل رخشان ڈویژن ایک لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہے اور اس کا رقبہ پورے خیبر پختونخوا کے برابر بنتا ہے مگر یہاں کوئی یونیورسٹی نہیں۔

شیئر: