Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلٰی بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد، تین وزرا برطرف

بلوچستان میں ایک بار پھر سیاسی ہلچل شروع ہوگئی ہے اور وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ہے۔
تحریک عدم اعتماد پر 14 ارکان کے دستخط ہیں جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سات، تحریک انصاف کے چار اور عوامی نیشنل پارٹی کے تین ارکان شامل ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والے وزرا اور پارلیمانی سیکریٹریز کو برطرف کر دیا ہے۔
وزیراعلٰی کی جانب سے برطرف کیے جانے والوں میں صوبائی وزیر نوابزادہ طارق مگسی، پی ٹی آئی کے مبین خلجی، نعمت اللہ زہری، بی اے پی کے مٹھا خان اور اے این پی کے ملک نعیم  بازئی شامل ہیں۔
جبکہ نوابزادہ طارق مگسی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے خود استعفیٰ دیا ہے۔
بی اے پی کے سربراہ سابق وزیراعلٰی جام کمال خان، تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند اور عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے بدھ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔
یہ تینوں جماعتیں بلوچستان کی مخلوط حکومت میں بھی شامل ہیں۔
قبل ازیں کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جام کمال کا کہنا تھا کہ وفاق میں تبدیلی کے وقت ہم نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا ایک ہی ایجنڈے کی بنیاد ساتھ دیا کہ وہ بلوچستان میں بھی تبدیلی کے لیے ہمارا ساتھ دیں گے۔
انہوں نے اس حوالے سے یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ ’امید ہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں وعدہ پورا کریں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت انتظار کیا کہ بلوچستان میں معاملات بہتر ہوں مگر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت صوبے کے حالات بہتر کرنے میں ناکام رہی۔
’ہم نے بیڈ گورننس اور اس زیادتی پر مزید خاموش نہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے۔ نئی حکومت اور وزیراعلٰی سے متعلق فیصلے مشترکہ طور پر کریں گے۔‘
پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند نے کہا کہ جام کمال کی حکومت سے بھی ہمارے اختلافات تھے مگر جام کمال قدوس بزنجو کے مقابلے میں فرشتہ تھے۔
اںہوں نے عبدالقدوس بزنجو پر الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ اس وقت بدترین حکمرانی ہے اور کرپشن ہورہی ہے، سرکاری اسامیاں بیچی جارہی ہیں۔
عدم اعتماد جمع کرانے والوں میں وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو کی اپنی کابینہ کے دو وزرا پی ٹی آئی کے مبین خلجی، نعمت اللہ زہری اور تین پارلیمانی سیکریٹریز بھی شامل ہیں۔

بی اے پی کے سربراہ جام کمال کا کہنا تھا کہ اسمبلی کو پانچ سالہ مدت پوری کرنی چاہیے (فوٹو: اردو نیوز)

یہ گذشتہ آٹھ ماہ میں بلوچستان میں کسی بھی وزیراعلٰی کے خلاف عدم اعتماد کا تیسرا موقع ہے۔
اس سے پہلے گذشتہ سال ستمبر میں جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی پر مشتمل اپوزیشن نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جو تکنیکی وجوہات پر مسترد کی گئی تھی۔
ایک ماہ بعد اکتوبر میں جام کمال کے خلاف عبدالقدوس بزنجو کی سربراہی میں اپنی ہی جماعت اور حکومت میں شامل جماعتوں کے ارکان اور اپوزیشن نے مل کر عدم اعتماد جمع کرائی جس پر جام کمال نے وزارت اعلٰی سے استعفیٰ دے دیا تھا اور عبدالقدوس بزنجو نئے وزیراعلٰی منتخب ہوئے تھے۔
بی اے پی کے سربراہ جام کمال کا کہنا تھا کہ اسمبلی کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنی چاہیے، وزیراعظم اور وزیراعلٰی  کی تبدیلی میں کوئی قباحت نہیں۔ 

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے مطلوب ارکان

بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 33 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں بی اے پی کے 24، جمعیت علمائے اسلام کے 11، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 10، تحریک انصاف کے سات، اے این پی کے چار، بی این پی عوامی تین، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی دو)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جے ڈبلیو پی کا ایک ایک اور ایک آزاد رکن ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے بلوچستان اسمبلی میں ارکان کی تعداد 22 ہے جن کا عدم اعتماد کو کامیاب یا ناکام بنانے میں کردار سب سے اہم ہوگا۔

شیئر: