Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیسلا میں 10 فیصد ملازمتیں ختم، ایلون مسک ’نہایت برا محسوس کر رہے ہیں‘

ارب پتی کاروباری کے اس اعلان کو دنیا بھر میں کساد بازاری کے خدشے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے اپنی کمپنی ٹیسلا میں 10 فیصد ملازمتیں ختم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس پر ’نہایت برا محسوس کر رہے ہیں۔‘
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ اعلان ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹو ایلون مسک نے الیکٹرک کاریں بنانے والی اپنی کمپنی کے ایگزیکٹیوز کے نام ایک ای میل میں کیا ہے۔
ایلون مسک کی یہ ای میل جمعرات کو بھیجی گئی جس کا عنوان ہے کہ ’دنیا بھر میں ملازمتیں یا ہائرنگ روک دی جائے۔‘
روئٹرز کے مطابق یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا جب دو دن پہلے ایلون مسک نے اپنی کمپنی کے سٹاف سے کہا کہ وہ کام پر واپس آئیں یا ملازمت چھوڑ دیں۔
ارب پتی کاروباری کے اس اعلان کو دنیا بھر میں کساد بازاری کے خدشے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سٹاک ایکسچینج میں درج سالانہ گوشواروں کے مطابق ٹیسلا اور اس کی ذیلی شاخوں میں سنہ 2021 کے اختتام تک ایک لاکھ افراد ملازمت کر رہے تھے۔
ایلون مسک کی ملازمتوں میں کمی کے اعلان پر اُن کی کمپنی کی جانب سے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
ملازمتوں کے خاتمے کی روئٹرز کی رپورٹ کے بعد امریکہ میں جمعے کو کاروبار کے آغاز پر سٹاک ایکسچینج میں ٹیسلا کے شیئر کی قدر پانچ فیصد گری جبکہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کے سٹاک ایکسچینج میں اس کمپنی کے حصص کی قدت میں ساڑھے تین فیصد کمی دیکھی گئی۔
ایلون مسک نے حالیہ دنوں میں کساد بازاری کے خطرے سے خبردار کیا تھا تاہم ان کی جانب سے نئی ملازمتوں یا ہائرنگ کو منجمد کیا جانا اور 10 فیصد ملازمتیں ختم کرنا نہایت اہم اور اپنی نوعیت کا بڑا فیصلہ ہے جو ایک کارساز کمپنی کے مالک کی جانب سے کیا گیا۔

ایلون مسک کی ملازمتوں میں کمی کے اعلان پر اُن کی کمپنی کی جانب سے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ٹیسلا اور دیگر کمپنیوں کی الیکٹرک کاروں کی مانگ تاحال کمی نہیں آئی لیکن ایلون مسک کی کمپنی کو چین کے شہر شنگھائی میں قائم فیکٹری کو عالمی وبا کورونا کے بعد کھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
معاشی تجزیہ کار فرینک شوپ نے کہا کہ ’بہتر یہی ہوتا ہے کہ اچھے وقت پر بچت کے لیے اقدامات کیے جائیں بجائے یہ کہ برے وقت میں ایسا کیا جائے۔ میں اس اعلان کو احتیاطی تدبیر کے طور پر دیکھتا ہوں۔‘

شیئر: