Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میانمار میں جمہوریت پسند چار کارکنوں کو سزائے موت

چاروں پر انسداد دہشت گردی کے قانون اور تعزیرات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
میانمار کے سرکاری میڈیا نے پیر کو کہا ہے کہ فوجی حکام نے ’دہشت گردانہ سرگرمیوں‘ میں مدد کرنے کے الزام میں جمہوریت پسند چار کارکنوں کو سزائے موت دے دی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ سزائے موت دی گئی ہے۔
ان چاروں افراد کا رواں برس جنوری میں بند دروازوں کے پیچھے ٹرائل ہوا تھا جس میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر فوج سے لڑنے والی ملیشیا کی مدد کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ میانمار کی فوج نے گزشتہ برس ملک میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنے مخالفوں کے خلاف خونی کریک ڈاؤن شروع کا آغاز کر دیا تھا۔
ان سزائے موت کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کے دو ماہرین نے انہیں لوگوں میں ’خوف پھیلانے کی مذموم کوشش‘ قرار دیا ہے۔
اخبار گلوبل نیو لائٹ آف میانمار کے مطابق سزائے موت پانے والے افراد میں جمہوریت کے لیے کام کرنے والے کیو من یو، جو جمی کے نام سے مشہور ہیں، اور سابق قانون ساز اور ہپ ہاپ آرٹسٹ فائو زیا تھاؤ شامل ہیں۔
53 سالہ کیو من یو اور 41 سالہ فائو زیا تھاؤ فوج کی جانب سے اقتدار سے نکالے جانے والی رہنما آنگ سان سوچی کے اتحادی تھے۔ دونوں کی اپیلیں جون میں مسترد کر دی گئی تھیں۔
سزائے موت پانے والے دیگر دو افراد ہلا میو آنگ اور آنگ تھورا زاؤ تھے۔

میانمار کی فوج نے گزشتہ برس آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اخبار نے تفصیل بتائے بغیر کہا ہے کہ ان چاروں پر انسداد دہشت گردی کے قانون اور تعزیرات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور یہ سزا جیل کے طریقہ کار کے تحت دی گئی ہے۔
میانمار میں پھانسی کے ذریعے سزائے موت دی جاتی رہی ہے۔
روئٹرز نے جب فوج کے ترجمان سے اس حوالے سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
دوسری جانب فائو زیا تھاؤ کی اہلیہ کے مطابق انہیں اپنے شوہر کی سزائے موت کے حوالے سے کچھ علم نہیں ہے۔
سیاسی قیدیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے اب تک سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 21 سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ فوجی حکومت کے مطابق یہ اعداد و شمار مبالغہ آمیز ہیں۔

شیئر: