Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بحران کے حل کے لیے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا 17 میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟‘ (فائل فوٹو: اردو نیوز)
سپریم کورٹ میں ڈپٹی سپیکر پنجاب کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت میں ڈپٹی سپیکر اور حکومتی اتحاد کے وکلا نے دلائل دینے سے معذرت کر لی ہے۔
منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تو ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ’مجھے میرے موکل نے بائیکاٹ کا کہا ہے۔
حکومتی اتحاد کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی دلائل دینے سے معذرت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ’ہمیں بھی بائیکاٹ کی ہدایت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’فل کورٹ تشکیل دینے کی خاص وجہ ہمیں نہیں بتائی گئی۔ ہم نے سوال کیا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیس قانون کے تحت دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا ’عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیے گئے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال کے جواب کے لیے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’فریقین کے وکلا کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا، صدر کی سربراہی میں 1988 میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دی تھی۔
’عدالت کا موقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی، فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا۔‘ (فائل فوٹو: اردو نیوز)

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’گورننس اور بحران کے حل کے لیے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’دلائل کے دوران 21 ویں ترمیم کے کیس کا حوالہ دیا گیا، 21 ویں ترمیم والے فیصلے میں آبزرویشن ہے کہ پارٹی سربراہ ووٹ دینے کی ہدایت کر سکتا ہے۔
’آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا 17 میں سے آٹھ ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ عدالت کے سامنے آٹھ ججز کے  فیصلہ کا حوالہ دیا گیا۔ آرٹیکل 63 اے سے متعلق آٹھ ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے۔ جس کیس میں آٹھ ججز نے فیصلہ دیا وہ 17 رکنی بینچ تھا۔
’آرٹیکل 63 سے پر فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ ’قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، دوسرا راستہ ہے کہ ہم اس بینچ سے الگ ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ’عدالت کا بائیکاٹ کرنے والے تھوڑا دل بڑا کریں اور کارروائی سنیں۔

شیئر: