Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز گل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل مسترد

اسلام آباد کی سیشن عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔
جمعے کو عدالت نے پولیس کی نظر ثانی اپیل ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرنے کا حکم درست ہے۔‘
اسلام آباد پولیس نے تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کی تھی۔
جمعے کو شہباز گل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر پولیس نے عدالت میں پیش کر کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس کو مسترد کرتے ہوئے ملزم کو جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر نے پراسیکیوٹر اور ملزم کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ سنایا۔
شہباز گل پر پاکستان کی فوج کے اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ درج ہے۔
قبل ازیں شہباز گل نے عدالت کو بتایا کہ ان کو پولیس نے ساری رات جگائے رکھا اور تشدد کیا۔
شہباز گل نے عدالت میں کہا کہ وہ اپنی افواج کے بارے میں ایسی کوئی بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ 
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عدالت میں کہا کہ شہباز گل کے ڈرائیور کو بنی گالہ چھپایا ہوا ہے جس کے پاس فون ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل کے پاس ٹرانسکرپٹ تھا جو پڑھا گیا یہ نہیں بتا رہے کہ کون ان کے پیچھے ہے۔ ان کا پولی گرافک ٹیسٹ کرانا ہے کہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ ہے۔‘ 
شہباز گل کی ٹی وی پر کی گئی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ عدالت کے سامنے پڑھنے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے ملزم کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ فوج کے اندر مختلف رینکس کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی گئی۔ تفتیش کا مقصد یہ ہے کہ ہم شواہد اکٹھے کرنا چاہتے ہیں۔
کیس کے پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ ’پہلے ریمانڈ میں ہم کہہ رہے تھے اس کا ٹرانسکرپٹ اصلی ہے یا نہیں۔ ہم نے ابھی دیکھنا ہے پروگرام کے پیچھے پروڈیوسر کون تھا۔‘
جہانگیر جدون نے عدالت میں کہا کہ ملزم سے موبائل، لیپ ٹاپ برآمد کرنا ہے۔ 
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’استدعا ہے ملزم ہائی پروفائل ہے ہم نے پولی گرافک ٹیسٹ کرانا ہے، ہمیں چار پانچ دن دیں تاکہ پنجاب فرانزک لیب سے پولی گرافک ٹیسٹ کرائیں۔ ہم نے پیمرا کو بھی لکھا ہے ہو سکتا ہے ملزم کو کراچی لے جانا پڑے۔ 
پراسیکوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم موبائل فراہم کرنے میں بھی تعاون نہیں کر رہا۔ آڈیو کا فرانزک کیا ہے ٹی وی پر آواز شہباز گل کی ثابت ہو گئی ہے۔

کیس کے پراسیکیوٹر جہانگیر جدون نے عدالت میں کہا کہ ملزم سے موبائل، لیپ ٹاپ برآمد کرنا ہے۔ فوٹو: سکرین گریب

شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ ’تشدد کے نشانات کپڑوں پر نہیں بلکہ کمر پر ہیں۔ یہ میڈیا پر چلا رہے ہیں اور ان کے وظیفہ خوار صحافی کہہ رہے ہیں دوران تفتیش شہباز گل قومی ترانہ پڑھنا شروع ہو گئے۔‘ 
شہباز گل نے عدالت میں کیا بیان دیا؟ 
اپنے وکلا کے ساتھ مشاورت کے بعد پولیس حراست میں موجود شہباز گل عدالتی کارروائی کے دوران دو مرتبہ روسٹرم پر آئے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ دوران تفتیش ان سے کوئی اور سوال نہیں پوچھا جاتا۔ ’بس یہ پوچھتے ہیں کہ عمران خان کیا کھاتے ہیں؟ تم نے جنرل فیض حمید سے کتنی ملاقاتیں کیں؟ عمران خان نے تمہیں کیا بیان دینے کو کہا؟‘
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 'میں ان کو کہتا ہوں کہ میں نے ایسا کوئی بیان ہی نہیں دیا۔‘
عدالتی کارروائی کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے اپنی کمر سے قمیض ہٹا کر عدالت کو تشدد کے نشانات دکھائے۔
انہوں نے بیان دیا کہ مجھ پر تشدد کیا جاتا ہے۔ پولیس نے میڈیکل بھی نہیں کروایا اور عدالت میں جعلی رپورٹ جمع کرائی۔ 
شہباز گل نے عدالت میں کہا کہ انہوں نے کوئی اعترافی بیان نہیں دیا۔ 
شہباز گل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس ان کو رات کو سونے نہیں دیتی، 'مجھے رات کو بار بار اٹھایا جاتا ہے۔ مجھے طبی مسائل ہیں جس کی وجہ سے اگر نیند پوری نہ ہو تو جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’میں پروفیسر ہوں کوئی مجرم نہیں، مجھے میرے وکلا سے ملاقات کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔‘
شہباز گل نے دوسرے موبائل کے بارے کہا کہ 'جس دن مجھے گرفتار کیا گیا اس وقت موبائل سگنلز ہی نہیں تھے لینڈ لائن پر بات کی تھی۔‘ اس پر ان کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ موبائل فون حاصل کرنے کا مقصد سیاسی حکمت عملی جاننا ہے۔
پیشی کے موقع پر علی نواز اعوان، راجہ خرم نواز، کنول شوزب اورتحریک انصاف کے دیگر رہنما موجود تھے اور کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
دوسری جانب جوڈیشل مجسٹریٹ سلمان بدر نے شہباز گل کے ڈرائیور کی اہلیہ سائرہ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ان کی ضمانت 30 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی۔

شیئر: