Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالت کا شہباز گل کو مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے کا حکم

شہباز گل پر اداروں میں افسران کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے۔ فوٹو: پی آئی ڈی
اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کو مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔ 
بدھ کو ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کی عدالت نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے خلاف نظر ثانی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا۔
دوسری جانب شہباز گل کے وکلا نے سیشن جج کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلینج کر دیا ہے۔
درخواست پر سماعت کا آغاز سپیشل پبلک پراسیکیوٹر رضوان عباسی کے دلائل سے ہوا جس کے بعد شہباز گل کے وکلا سلمان صفدر اور شعیب شاہین نے اپنے دلائل پیش کیے۔
سماعت کے دوران سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ ‏دھمکیوں اور چوری کے مقدمات میں بھی 8 دن کا جسمانی ریمانڈ لیتے ہیں، یہ تو پھر بغاوت کا مقدمہ ہے۔
’تفتیش مکمل کرنے کے لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے۔ اس کیس میں جسمانی ریمانڈ تفتیش کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ملزم کا جسمانی ریمانڈ تمام اہم سوالوں کے جوابات جاننا اہم ہیں۔‘
’شہباز گل نے سادہ فون دیا، سمارٹ فون برآمد نہیں کیا جا سکا‘
انہوں نے کہا کہ ملزم کے موبائل سے صرف ڈیٹا حاصل کرنا ہوتا تو وہ جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے، لیکن ڈیٹا حاصل کر کے تفتیش کرنا اس کیس میں ضروری ہے۔
’یہ سارا مقدمہ ملزم کی جانب سے دیے گئے بیان سے متعلق یے۔ تفتیش کے دوران شواہد حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔‘
سپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ‏شہباز گل نے گرفتاری کے وقت سادہ فون دیا تھا، اصل سمارٹ فون تاحال برآمد نہیں کیا جاسکا۔
سماعت کے دوران پولیس کے تفتیشی افسر نے ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا۔
پولیس نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ہونے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

شہباز گل کو 9 اگست کو بنی گالہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ فوٹو: سکرین گریب

شہباز گل کے بیان سے حب الوطنی جھلکتی ہے، وکیل سلمان صفدر
شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں درج ایف آئی آر پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے جو بات کی ہے وہ غیر مناسب ہو سکتی ہے لیکن جرم کے زمرے میں نہیں آتی۔ شہباز گل نے اپنے بیان کو تسلیم کیا ہے۔ ریمانڈ حاصل کرنے کا مقصد سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے مزید تشدد کرنا ہے۔‘
’میں یہ مانتا ہوں کہ جو کہا گیا وہ نہیں کہنا چاہیے لیکن یہ بغاوت یا بغاوت پر اکسانے کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس پر کریمنل کیس نہیں بنتا۔‘ 
انہوں نے ایمان مزاری پر فوج کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی ار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایمان مزاری کی جانب سے غیر مشروط معافی پر ایف آئی آر خارج کر دی تھی۔ 
وکیل سلمان صفدر نے کہا ’آپ نے دیکھنا ہے کہ مجسٹریٹ نے کیا زیادتی کی ہے؟ اس کیس میں ملزم کو گھیرا ڈال کر گاڑی کے شیشے توڑ کر گرفتار کیا گیا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا یے کہ موبائل ملزم سے لیا گیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آج کل کے دور میں کوئی اپنے موبائل کے بغیر گھر سے نکلے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ درج کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے اجازت لی گئی؟
سلمان صفدر نے شہباز گل کا بیان عدالت میں پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے جو بیان دیا اس میں حب الوطنی جھلکتی ہے۔ اس میں صرف ایک جملہ نا مناسب تھا لیکن وہ بھی جرم کے زمرے میں نہیں آتا۔۔۔۔ جن لوگوں نے فوج کو گالیاں دیں ان کو وزیر دفاع بنایا گیا ہے۔‘
انہوں نے جنرل مرزا اسلم بیگ اور ایئر چیف مارشل اصغر خان کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ غیر قانونی احکامات نہ مانیں جائیں۔ میرے موکل نے بھی یہی بات کی ہے۔‘
سلمان صفدر نے سوال اٹھایا کہ ’پراسیکیوشن کا دعویٰ ہے کہ موبائل فون شہباز گل کے پاس موجود نہیں۔ جب موبائل فون ان کے پاس نہیں تو پھر جسمانی ریمانڈ کس لیے درکار ہے؟

عمران خان نے کہا تھا کہ شہباز گل پر ظلم کرنا درست نہیں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’‏شہباز گل کے پرائیویٹ پارٹس پر ٹارچر کیا گیا، تصویریں دیکھانے کے لیے تیار ہوں۔ صرف ٹارچر کو دیکھتے ہوئے یہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ریمانڈ کا مقصد مزید ٹارچر کرنا ہے۔‘
’میرے تمام دلائل کو نظر انداز کر دیں لیکن اس کیس کی نوعیت دیکھتے ہوئے جسمانی ریمانڈ کا مقصد ملزم کو ٹارچر کرنا ہے۔ ملزم پر جسمانی تشدد کیا گیا اور جسمانی ریمانڈ پر اسی لیے زیادہ زور بھی دیا جا رہا ہے۔ آپ سارے دلائل کو نظر انداز بھی کر لیں تو اس نقطے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
شہباز گل کے پورے جسم حتیٰ کہ پرائیویٹ پارٹس پر تشدد کیا گیا، وکیل شعیب شاہین
شہباز گل کے معاون وکیل شعیب شاہین نے دلائل پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ جب وہ اپنے موکل سے ملنے تھانے گئے تو شہباز گل نے بتایا کہ ان کے پورے جسم پر تشدد کیا گیا حتیٰ کہ پرائیویٹ پارٹس پر بھی تشدد کیا گیا ہے۔
’میرے موکل کا جسم تشدد کے نشانات سے اتنا کالا ہوگیا ہے جتنا آپ کا کوٹ کالا ہے۔‘
 انہوں نے کہا کہ شہباز گل سے اعترافی بیان لینا مقصد ہے لیکن پولیس کو دیے گئے بیان کی قانونی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔
’جسمانی ریمانڈ کا مقصد تشدد کرنا ہے، عدالت جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرے۔‘
میڈیکل چیک اپ میں تشدد کے شواہد نہیں ملے، پبلک پراسیکیوٹر
سپیشل پبلک پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر سیاسی لوگوں کے نام لینے پر درج نہیں کی گئی، جو بیان دیا گیا ہے وہ بغاوت پر اکسانے کے زمرے میں آتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اسلام آباد میں حکومت کا مطلب چیف کمشنر اسلام آباد ہیں اور ان سے اجازت لے کر مقدمہ درج ہوا۔ اس سے پہلے بھی اس نوعیت کے مقدمات درج کرنے کے لیے ان سے اجازت لی جاتی رہی ہے۔‘
رضوان عباسی نے مزید کہا کہ ملزم کا دو بار میڈیکل چیک اپ کروایا گیا اس میں کسی قسم کے تشدد کے شواہد نہیں ملے۔

شیئر: