Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان پر حملے سے پہلے کنٹینر پر کیا ہوتا رہا؟

پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ جب جمعرات کو وزیرآباد پہنچا اور اس پر فائرنگ ہوئی تو اس وقت اردو نیوز کی ٹیم عمران خان کے انٹرویو کے لیے کنٹینر میں موجود تھی۔ 
انٹرویو کا وقت ایک بجے مقرر تھا اور بتایا گیا تھا کہ ساڑھے 12 اور ایک کے درمیان ہم کنٹینر کے دروازے کے پاس پہنچ کر اس پر دستک دیں تو ہمیں اندر لے جایا جائے گا۔ 
تقریباً 12 بج کر 50 منٹ پر کنٹینر کے قریب پہنچے تو یہ پولیس کی گاڑیوں میں گھرا ہوا تھا۔ اس کے ارد گرد پولیس کمانڈوز تعینات تھے تاہم اس وقت مجمع بہت کم تھا اور ہم سڑک کے دوسری طرف اپنی گاڑی سے اتر کر بغیر کسی چیکنگ کے کنٹینر کے دروازے پر پہنچے اور دستک دی۔ 
اندر سے ایک مضبوط  جسم ، لمبے بالوں اور تراشیدہ گرے داڑھی والے شخص نے دروازہ کھولا اور نام پوچھے۔

’ہم بغیر کسی چیکنگ کے کنٹینر کے دروازے تک پہنچے اور دستک دی‘ (فوٹو: پی ٹی آئی سوشل میڈیا)

اپنا اور اپنے کولیگ عرفان قریشی کا نام بتایا تو انہوں نے اپنے پاس موجود ایک ڈائری میں لکھے ہمارے ناموں سے تصدیق کی کہ ہماری اپائنٹمنٹ ان کے پاس درج ہے یا نہیں۔ تصدیق کے بعد انہوں نے ہم دونوں کا باری باری ہاتھ پکڑ کر اوپر کھینچا اور کنٹینر کے اند داخل کر دیا۔  
اس وقت کنٹینر اندر سے بالکل خالی تھا اور عمران خان کی ٹیم کے اِکا دُکا لوگ اپنی معمول کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تیاریاں کر رہے تھے۔ 
آہستہ آہستہ وہاں پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر اعجاز چوہدری، عندلیب عباس، فواد چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، مسرت جمشید چیمہ، میاں اسلم اقبال، حماد اظہر اور دیگر کئی لوگ بھی پہنچ گئے۔

’عمران خان کنٹینر کے اوپر خطاب کر رہے تھے اور ہم نیچے والے حصے میں انتظار کرر ہے تھے‘ (فوٹو: پی ٹی آئی، سوشل میڈیا)

وہاں پر ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے علاوہ سکائی نیوز کی ایک ٹیم بنکاک سے خصوصی طور پر عمران خان کا انٹرویو کرنے کے لیے آئی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ انگریزی جریدے نیوز ویک کے دو صحافی بھی موجود ہیں۔ 
ہمیں بتایا گیا کہ عمران خان جونہی کنٹینر پر پہنچیں گے، ہمیں یا سکائی نیوز کی ٹیم کو ان سے ملوا دیا جائے گا اور پھر ہم باری باری ان سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ 
اس دوران کنٹینر میں روز مرہ کی اشیا ٹشو پیپرز، پانی اور سوفٹ ڈرنکز کا ایک وسیع ذخیرہ جمع کیا گیا اور میکڈونلڈز سے کچھ برگرز بھی منگوا کر ایک طرف رکھ دیے گیے۔ 
تقریباً دو بجے عمران خان پہنچے تو وہ سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس کافی تروتازہ لگ رہے تھے۔ وہ آتے ہی کنٹینر کے اندر دائیں طرف ڈرائیونگ سیٹ کی پشت پر بنے اپنے خصوصی کیبن میں چلے گئے جہاں انہوں نے وہاں موجود پی ٹی آئی رہنماؤں کے ساتھ ایک مختصر میٹنگ کی۔ 
اس کے بعد سکائی نیوز کی ٹیم کو اندر بلا لیا گیا اور ہمیں کہا گیا کہ ان سے انٹرویو کے بعد عمران خان تھوڑی دیر کے لیے کنٹینر کے اوپر جا کر ایک مختصر خطاب کریں گے اور اس کے بعد آپ سے بات کریں گے۔  
اس دوران فواد چوہدری نے اس ڈائری جس پر کنٹینر پر آنے والوں کے نام لکھے ہوتے ہیں، اس سے تین اوراق پھاڑے اور اس پر انگریزی میں کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ 
سکائی نیوز کو انٹرویو دینے کے بعد عمران خان اپنے کیبن سے باہر نکلے تو ان کے ساتھ اشارے سے سلام دعا ہوئی۔ فواد چوہدری نے وہ انگریزی لکھے اوراق ان کے ہاتھ میں پکڑا دیے جنہیں لے کر وہ کنٹینر کے اوپر چلے گئے۔ 
ان کی روانگی کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ’آپ تیار رہیں وہ تھوڑی دیر میں نیچے آئیں گے۔‘  
عمران خان نے اوپر جا کر ایک مختصر خطاب کیا جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آج کے مرکزی خطاب میں کچھ انکشافات کریں گے۔ 
اس دوران پی ٹی آئی رہنما باری باری کبھی کنٹینر کے اوپر جاتے اور کبھی نیچے آجاتے۔ ہر لیڈر کنٹینر کی انتظامیہ سے اپنے لوگوں کو اوپر بھجوانے کی سفارش کر رہا تھا اور انتظامیہ کے لوگ انہیں بتا رہے تھے کہ اوپر رش بہت ہے لہٰذا تمام لوگ اوپر نہیں جا سکتے اور جن خاص لوگوں کا اوپر جانا ضروری ہے وہ بھی باری باری جائیں گے۔  

عمران خان کو مرہم پٹی کے بعد ہسپتال روانہ کر دیا گیا (فوٹو: سکرین گریب)

اس کے باوجود مقامی پی ٹی آئی عہدیداروں کو ترجیح دی جاتی رہی اور ان کے نام اور عہدے جانچنے کے بعد انہیں ایک ایک اور دو دو کر کے کنٹینر کے اوپر بھیجا جاتا رہا۔  
مقامی میڈیا کے نمائندے بھی ایک ایک کر کے اوپر جاتے رہے اور کنٹینر کے بالائی حصے میں اچھی خاصی بھیڑ لگ گئی۔ 
پی ٹی آئی لاہور کے رہنما میاں اسلم اقبال نے جب دیکھا کہ کنٹینر کے اندر بھی لوگ کافی تعداد میں جمع ہو گئے ہیں تو انہوں نے اپنے پولیس گارڈ کو مزید میکڈونلڈز برگرز لانے کے لیے بھیجا جس نے واپس آ کر کنٹینر کے اندر موجود تمام لوگوں میں تقسیم کیے اور اس کے بعد تمام رہنماؤں اور وہاں موجود دوسرے لوگوں نے چلتے کنٹینر میں ’ورکنگ لنچ‘ کیا۔ 
اس دوران پی ٹی آئی کے رہنما کافی مطمئن اور تھے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ 
ساڑھے تین بجے تک عمران خان نیچے نہیں آئے اور ہماری فرسٹریشن بڑھ رہی تھی۔  
پوچھنے پر ان کی ٹیم کی ایک رکن نے بتایا کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ عمران خان کو نیچے لے کر آئیں لیکن ایک دفعہ وہ کنٹینر کے اوپر چلے جائیں تو پھر انہیں نیچے لانا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔‘
تقریباً چار بجے ہمیں کہا گیا کہ اگلے پانچ سے سات منٹ میں عمران خان نیچے آ سکتے ہیں لہٰذا آپ تیار رہیں۔ یہ سن کر میں ان کے کیبن کے اندر گیا اور اس جگہ اور نشستوں کا جائزہ لیا جہاں بیٹھ کر ہم نے ان سے بات کرنا تھی۔  

واقعے کے بعد پی ٹی آئی کارکن روتے ہوئے نعرے لگا رہے تھے (فوٹو: سکرین گریب)

وہاں سے پلٹ کر کولیگ عرفان قریشی سے یہ کہنے ہی لگا تھا کہ کیمرے سیٹ کر لیں کہ  کانوں میں تڑ تڑ تڑ کی آواز آئی۔ میں نے عرفان کی طرف دیکھا اور ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اتفاق کیا کہ کچھ گڑ بڑ ہوئی ہے۔ 
عرفان قریشی کے منہ سے فوراً نکلا ’یہ فائرنگ ہی لگتی ہے۔‘ اس پر وہاں موجود ایک اور شخص نے کہا کہ لگتا ہے فائرنگ ہوئی ہے جس پر کنٹینر کے حفاظتی عملے میں موجود ایک شخص نے کہا کہ یہ فائرنگ نہیں ہے فائرنگ کا صاف پتہ چل جاتا ہے۔ 
اتنی دیر میں اوپر سے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے ’فائرنگ ہوئی ہے کنٹینر خالی کریں، کنٹینر خالی کریں۔‘
ہم نے اپنی پوزیشن سنبھالی اور عرفان قریشی نے وہ مناظر فلمبند کرنا شروع کر دیے۔ تھوڑی دیر بعد عمران خان کو نیچے لایا گیا اور مرہم پٹی کر کے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔
ان کی روانگی کے وقت کارکنوں کے چہرے غم وغصے سے لال تھے۔ ان میں کئی رو رہے تھے اور کئی نعرے لگا رہے تھے لیکن جب عمران خان نے کنٹینر کے دروازے میں کھڑے ہو کر ہاتھ ہلایا تو سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے نعرہ لگایا ’ خان تیرے جانثار، بے شمار بے شمار۔‘

شیئر: