عقیل عباس جعفری کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے 13 برس کی عمر میں بطور چائلڈ سٹار کام کیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں بچ جانے والی فلم انڈسٹری پر کافی مشکل وقت آیا۔ لاہور کے فلمی مرکز سے بڑی تعداد میں غیر مسلم فنکار بمبئی (حالیہ ممبئی) چلے گئے۔ جس کے مقابلے میں چند ایک نام ہی بمبئی سے لاہور آئے۔
فلمی نقاد اور مصنف اعجاز گُل کے مطابق تقسیم کے بعد کچھ لوگوں نے اردو فلمیں بنانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوئے۔ پھر پنجابی فلمیں بنانے کا آغاز ہوا جبکہ سنیما پر سرحد پار کی اردو فلمیں کامیاب ٹھہریں۔
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ یہاں بھی دوبارہ سے اردو فلمیں بننا شروع ہو گئیں۔ اور جلد ہی پاکستانی فلم انڈسٹری نے ایسے شاہکار تخلیق کرنا شروع کر دیے جنہوں نے بیرون ملک بھی بہت شہرت حاصل کی۔
پاکستان میں فلم انڈسٹری کے محققین کے مطابق 60 کی دہائی پاکستانی فلموں کے لیے سنہری ترین دور تھا۔ 1966 سے 1968 تک تین برسوں میں باالترتیب 88، 84 اور 127 فلمیں ریلیز ہوئیں۔
1968 میں ریلیز ہونے والی فلموں میں سے سات پر کھڑکی توڑ رش جبکہ 11 مزید فلمیں بھی کامیاب سمجھی گئیں۔ اردو کی فلموں میں سنگدل، دل میرا دھڑکن تیری، بھائی بہن اور صائقہ نے زبردست بزنس کیا۔
اسی برس 29 نومبر کو کراچی سے ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام ’منزل دور نہیں‘ تھا۔ یہ فلم ملکہ سلطانہ آفندی نے بنائی تھی جب کہ ہیرو کا کردار انہی کے شوہر سجاد نے نبھایا تھا۔
فلم کی ہیروئین صوفیہ بانو تھیں جنہوں نے 60 اور 70 کی دہائی کی کئی معروف فلموں میں سائیڈ رول بھی ادا کیا تھا۔
اداکارہ روزینہ نے بھی فلم میں کردار نبھایا تھا جو ایک طویل عرصے تک فلمی دنیا میں مشہور رہیں۔ حنیف کی خاص بات ان کی دلیپ کمار سے کچھ مشابہت تھی۔ جبکہ کاسٹ میں کمال ایرانی سمیت کچھ دیگر نام بھی شامل تھے۔
فلم کے مصنف اقبال رضوی نے کئی سپر ہٹ فلمیں لکھی تھیں۔ نگہت سیما کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف گلوکارہ تھیں جن کا ایک اور فلم کے لیے گایا ہوا گیت ’میرا چن ماہی کپتان‘ بہت مقبول ہوا تھا۔
فلم کے چاروں گانوں کے لیے موسیقی کی دھنیں لال محمد اقبال کی مشہور جوڑی نے ترتیب دی تھیں۔ دکھی پریم نگری کا ایک گانا بھی شامل تھا جو ’ہفت روزہ نگار‘ سمیت بہت سے اخبارات و جرائد کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔
معروف تاریخ دان اور مصنف عقیل عباس جعفری کے مطابق اس فلم کی ایک خاص بات اس میں چائلڈ سٹار کے طور پر مختصر سا کردار ادا کرنے والے آصف علی زرداری تھے جو بعد میں صدر پاکستان بنے۔
عقیل عباس جعفری کے مطابق 1955 میں پیدا ہونے والے آصف زرداری اس وقت محض 13 برس کے تھے جب بطور چائلڈ سٹار وہ سکرین پر نمودار ہوئے۔ آصف زرداری ملکہ سلطانہ آفندی کے بھانجے ہیں، اور ان کے والد حاکم علی زرداری کراچی میں فلموں کے کاروبارسے منسلک تھے اور کراچی کا ایک بہت بڑا سنیما ’بمبینو سنیما‘ ان کی ملکیت تھا ۔
اپنے ایک انٹرویو میں آصف زرداری نے دعویٰ کیا تھا کہ 1963 میں بمبینو چیمبرز کے لیے سات منزلہ بلڈنگ تعمیر کی گئی تھی۔ جس کے پینٹ ہاؤس کی تعمیر پر ساڑھے تین لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
فلم ناکام کیوں ہوئی؟
عقیل عباس جعفری بتاتے ہیں کہ آصف زرداری کی یہ فلم کراچی کے 10 اور لاہور کے دو سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی۔ ان 12 سنیما گھروں میں ریلیز ہونے کے باوجود یہ فلم زیادہ بزنس نہ کر سکی۔ اس کا سب سے بڑا سبب اس کا رمضان میں ریلیز ہونا تھا۔ رمضان میں فلم دیکھنے کے کم رجحان اور عید کے لیے سنیما گھر خالی کرانے کی روایت نے اسے فلم انڈسٹری کی نظروں سے تقریباً اوجھل کر دیا۔
عقیل عباس جعفری کے مطابق اب اس فلم کا صرف یہ حوالہ ملتا ہے کہ اس میں آصف علی زرداری نے کام کیا اور اب یہ فلم کہیں موجود نہیں۔ صرف فلم کی ریلیز کے دنوں میں چھپنے والے اخباری اشتہار موجود ہیں۔
کیا آصف زرداری نے سالگرہ فلم میں بھی کام کیا تھا؟
کچھ برس قبل ایک ٹی وی اینکر آفتاب اقبال نے دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ آصف علی زرداری نے بچپن میں ایک فلم میں بطور چائلڈ سٹار کام کیا جس کا نام ’سالگرہ‘ تھا۔
کچھ اس سے ملتی جلتی بات سینیئر اداکار جاوید شیخ اپنے ایک انٹرویو میں کر چکے ہیں۔
جاوید شیخ کا کہنا تھا کہ ’جب فلم سالگرہ بن رہی تھی تو آصف زرداری کو بھی شوق تھا شاید اور اس فلم میں انہوں نے کسی کے بچپن کا رول بھی کیا تھا۔ شاید وحید مراد یا کسی اور کے۔‘
ڈاکٹر عقیل عباس جعفری اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق کے مطابق چونکہ سالگرہ فلم میں بھی ایک بچے کا کردار تھا اس وجہ سے لوگوں نے اس بچے کے ویڈیو کلپ لگا کر اسے آصف زرداری ثابت کرنے کی کوشش کی۔
ان کے مطابق سالگرہ فلم لاہور میں بنی تھی اور اس کے بنانے والوں سے آصف زرداری کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ جبکہ آصف زرداری کا قیام اس وقت کراچی میں تھا۔
عقیل عباس جعفری کے مطابق آصف زرداری نے صرف فلم ’منزل دور نہیں‘ میں کام کیا تھا کیونکہ یہ ان کی خالہ کی فلم تھی۔ ان کے خالو سجاد اس میں ہیرو تھے اور یہ ایک طرح سے ان کی فیملی فلم تھی۔
عقیل عباس جعفری کے دعوے کی تصدیق پاکستان فلم ڈائریکٹری سے بھی ہو جاتی ہے جہاں فلم کی کاسٹ میں ان کا نام بطور چائلڈ سٹار شامل ہے۔ لیکن اسی ڈائریکٹری میں فلم سالگرہ کی کاسٹ کے ناموں میں کہیں بھی آصف زرداری کا نام نظر نہیں آتا۔
فلم ’منزل دور نہیں‘ میں اس وقت آصف زرداری کا کردار شاید اس قدر نمایاں نہیں تھا اس لیے ڈان اور جنگ اخبار میں فلم کی نمائش کے اشتہار میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔
اس فلم کی لیڈنگ کاسٹ سے متعلق فلمی نقاد اور مصنف اعجاز گُل کہتے ہیں کہ فلم بنانے والے یا سکرین پر نظر آنے والے اداکاروں میں اس وقت کا کوئی بڑا نام نظر نہیں آتا۔ اور نہ ہی فلم کی کاسٹ یا بنانے والوں میں سے اس وقت تک کسی کو نگار ایوارڈ ملا تھا۔ اس لیے اس فلم کی ناکامی کی ایک وجہ معروف فلمی ناموں کا نہ ہونا بھی ہو سکتا ہے۔