Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جب برطانوی اخبار نے خبر ہی ڈیلیٹ کر دی تو اس سے واضح ہے کہ ان سے غلطی ہوئی‘

شہباز شریف سے متعلق ڈیلی میل نے 2019 میں رپورٹ شائع کی تھی (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
برطانوی اخبار ڈیلی میل نے جمعرات کو وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے متعلق خبر کی اشاعت پر معافی مانگی تو جہاں معاملے کا پس منظر بیان کیا وہیں اصل خبر کی تاریخ اشاعت اور دیگر تفصیل بھی شیئر کی۔
ابتدائی خبر سامنے آنے کے فورا بعد پاکستان میں سوشل میڈیا کی ٹائم لائنز پر جہاں حکومتی شخصیات، مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں اور پارٹی کے حامیوں نے اسے اپنی فتح سے تعبیر کیا وہیں اس معاملے کو بنیاد بنا کر تنقید کرنے والی مخالف سیاسی جماعت تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں پر تنقید بھی کی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے حامی ٹویپس ڈیلی میل کی معافی کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ موقف اپنائے دکھائی دیے کہ برطانوی اخبار نے خبر کے اس حصے پر معافی مانگی ہے جس میں قومی احتساب بیورو سے متعلق ڈیٹا کا ذکر ہے۔
علی نے آرٹیکل لکھنے والے صحافی ڈیوڈ روز کو مینشن کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ معافی کی وضاحت کر سکتے ہیں۔‘

کنول حیات نے ڈیلی میل کی خبر کا ذکر کیا تو اپنے کیے ہوئے ترجمہ کی بنیاد پر موقف اپنایا کہ ’یہ مقدمہ کی سیٹلمنٹ لگتی ہے۔‘

ڈاکٹر اعجاز بٹ کے ہینڈل نے کیے گئے تبصرہ میں ڈیلی میل سے وضاحت چاہی تو دعوی کیا کہ اس سے ’پاکستان میں ابہام پیدا ہو رہا ہے۔‘ اپنا اندازہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ نکات غلط تھے نہ کہ دھوکہ دہی کا سارا الزام۔‘

کون صحیح اور کون غلط کی بحث کے دوران شعیب عباسی نے ’دن کی دو بڑی خبروں‘ کا ذکر کرتے ہوئے ’یوتھ کی سوچ‘ بیان کی تو بڑی خبروں کی تفصیل بھی شیئر کی۔

کچھ صارفین نے تین برس تک عمران خان کے مشیر برائے احتساب و داخلہ رہنے والے مرزا شہزاد اکبر کا ذکر کرتے ہوئے دعوی کیا کہ اس رپورٹ کے پیچھے وہ اصل کردار تھے، کسی کو علم ہے مرزا صاحب کہاں ہیں؟
پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے اپنائے گئے موقف کے جواب میں حکومتی شخصیات نے صورتحال بیان کی تو جواب میں سیاسی مخالفین سے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اپنی ٹویٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’برطانوی، دبئی اور پاکستانی عدالتوں میں مقدمہ کریں۔‘

مختلف صارفین نے ’خبر کے مخصوص حصے پر معافی مانگی گئی ہے‘ کا دعوی تسلسل سے کیا تو انہیں جواب میں کہا گیا کہ ’اپنی پسند کو اب برطانوی میڈیا اور عدالتوں پر مسلط کرنے سے باز رہیں، اخبار نے پورا آرٹیکل اپنی ویب سائٹ سے ڈیلیٹ کیا ہے جس کا واضح مطلب خبر کا غلط ہونا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ نے موقف اپنایا کہ ’ڈیلی میل نے یہ مان لیا ہے کہ شیباز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ جو کرپشن والا آرٹیکل ڈیلی میل نے پبلش کیا تھا وہ آرٹیکل بھی اپنی ویب سائٹ سے ہٹا لیا ہے۔‘

مسلم لیگ کے حامی ٹویپس نے موقف اپنایا کہ ’جب اخبار نے خبر ہی ڈیلیٹ کر دی تو اس سے واضح ہے کہ ان سے غلطی ہوئی۔ معافی مانگنا اس کا ثبوت ہے، اب کوئی اسے مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے۔‘

وزیر ہوابازی اور ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ’معافی کی خبر‘ کا ذکر کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ ’سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر ٹیلی تھون میں 13 ارب روپے اکٹھے کرنے کا دعوی کرنے والے بتائیں یہ رقم کن اکاؤنٹس میں آئی، کب کہاں اور کیسے خرچ ہوئی؟‘

برطانوی اخبار ڈیلی میل کی جانب سے جولائی 2019 میں شائع کردہ خبر میں دعوی کیا گیا تھا کہ زلزلہ زدگان کے لیے دی گئی برطانوی امداد میں خردبرد کی گئی ہے۔ 
ڈیلی میل میں خبر کی اشاعت کے بعد جہاں اس وقت کی حکومت جماعت تحریک انصاف نے اسے اپوزیشن لیڈر کی بدعنوانی کا ثبوت کہا وہیں شہباز شریف نے اخبار کے خلاف برطانوی عدالت میں ہرجانے کا دعوی دائر کر دیا۔
عدالتی کارروائی کے دوران مختلف مواقع پر کبھی مسلم لیگ ن اور کبھی تحریک انصاف اسے اپنے موقف کی سچائی کے طور پر پیش کرتی رہی۔ شہباز شریف نے عدالت میں دی گئی درخواست واپس لی تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’انہیں علم نہیں تھا یہ کہاں پھنس گئے ہیں۔‘

شیئر: