Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شرحِ سود بلند ترین سطح پر، ’ہر قرض دار کو اضافی رقم ادا کرنا ہو گی‘

شرح سود اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ملک میں تیار کی جانے والی ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کی رہائشی سارہ کینتھ کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی حالیہ لہر میں ضروریات زندگی کی اشیا کو محدود کیا ہی تھا کہ ایک نیا طوفان سامنے آ گیا۔
 انہوں نے کہا کہ ’چار برس قبل لیا گیا قرض ادا کرنا اب مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔‘
مالی مشکلات کی وجہ سے ایک نجی بینک سے پانچ لاکھ روپے کا قرض لیا تھا اور ہر ماہ باقاعدگی سے ادائیگی کر رہی تھی لیکن گزشتہ ڈیڑھ برس سے ہر مہینے دو مہینے بعد شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے اور قرض کی ماہانہ قابلِ ادا رقم بڑھ جاتی ہے۔
’اب سمجھ یہ نہیں آتا کہ باقی بچے 85 ہزار کی مزید کتنی ادائیگی کرنا ہو گی اور وہ کیسے ادا  کریں گے؟ سنگل پیرنٹ ہونے کے ناتے کرائے کے گھر کی ذمہ داری، تین بچوں کی تعلیم اور خوراک سمیت دیگر اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں۔‘
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے جمعرات کے روز ایک ہنگامی اجلاس کے بعد شرح سود میں اضافے کا اعلان مقررہ وقت سے پہلے کر دیا ہے۔
مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود 17 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ہے۔
مرکزی بینک کے جاری کردہ مانیٹری پالیسی کا اعلامیے کے مطابق شرح سود میں تین فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔
اس تین فیصد اضافے سے شرح سود ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 20 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔
سٹیٹ بینک کا مزید کہنا تھا کہ شرح سود کو بڑھانے کا مقصد افراط زر میں اضافے اور مالیاتی استحکام کو لاحق خطرات کو روکنا ہے۔ اس کے علاوہ  نئے انفلوز  آنے میں تاخیر کا سامنا ہے جس سے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
یاد رہے کہ شیڈول کے مطابق یہ اجلاس رواں ماہ کے درمیان میں ہونا تھا۔
بینک دولت پاکستان نے گزشتہ 17 ماہ میں اب تک شرح سود میں 13 فیصد اضافہ کیا ہے۔

مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود 17 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی و تجزیہ کار حارث ضمیر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس نئے اضافے کے بعد قرض لینے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لون لینے والوں کو بینک سے معاہدے کے تحت چھ ماہ تو فِکس ریٹ ہوتا ہے لیکن اس کے بعد کائیبور کے حساب سے ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اب ہر قرض دار کو اضافی رقم ادا کرنی ہو گی۔‘
سارہ کینتھ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چار سال قبل جو قسط 15 ہزار روپے ماہانہ ادا کرنا ہوتی تھی، اب وہ 17 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
’پانچ لاکھ روپے کے لون کے اب تک 8 لاکھ روپے سے زائد ادا کر دیے ہیں۔ اب ہر انٹرسٹ ریٹ کے ساتھ رقم کی ادائیگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی میں بے تحاشا اضافے کے ساتھ قسط کی ادائیگی مشکل تر ہو گئی ہے۔‘  

کار فنانسنگ، ہاؤس فنانسنگ کم ہو جائے گی

حارث ضمیر کا کہنا تھا کہ ’ملک میں کار فنانسنگ پہلے ہی مشکل ہونے کی وجہ سے کم ہو گئی تھی، اب اور متاثر ہوگی۔ اس کے علاوہ گھر کی خریداری یا بنانے کے لیے لون لینے والے بھی اب سوچیں گے۔ یہ حکومت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ حکومت ادھار پر چلتی ہے اور ادھار کی اب ادائیگی بھی زیادہ کرنا پڑے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ’ پاکستان میں کام کرنے والی بیشتر کمپنیاں بینکوں سے قرض لےکر کام کرتی ہیں۔ اب 20 فیصد مرکزی بینک کی ادائیگی کرنا ہو گی اور اس سے ہٹ کر پانچ سے چھ فیصد ادا کرنا ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک لاکھ کے قرض کی ادائیگی اب ایک لاکھ 25 ہزار کرنا ہو گی اور کوئی کمپنی یہ بوجھ خود پر نہیں لے گی۔ بالآخر یہ پیسے عوام سے مہنگائی کی صورت میں ہی وصول کیے جائیں گے۔‘

شرح شود میں حالیہ اضافے کے بعد پاکستان میں کار فنانسنگ کی حوصلہ شکنی کا خدشہ ہے (فائل فوٹو: یکسابے)

’شرح سود اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ملک میں تیار کی جانے والی ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔ بالخصوص اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر اثر پڑے گا کیونکہ ملک میں زرعی شعبہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ فصلیں خراب ہونے کی وجہ سے ملک کی ضرورت کی بیش تر اشیا دیگر ممالک سے درآمد کی جا رہی ہیں۔‘

شرح سود میں اضافے پر کاروباری انجمنوں کا ردعمل

وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے صدر عرفان اقبال شیخ اور پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین محمد یونس ڈھاگا نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایک خط کے ذریعے سٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد کو پہلے ہی پالیسی ریٹ میں مزید اضافے کے پاکستانی معیشت پر شدید منفی اثرات سے آگاہ کر چکے ہیں۔ بزنس کمیونٹی کسی بھی مزید اضافے کو مسترد کرتی ہے۔‘
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد طارق یوسف نے کہا کہ ’سٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ میں 300 پوائنٹس اضافے کا اعلان قطعی طور پر ناقابل قبول ہے جس سے قرض لینے کی حوصلہ شکنی ہو گی۔‘
’موجودہ حالات میں کاروبار 25 فیصد منافع کمانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں لہٰذا اتنی مہنگی شرح پر قرضہ لینے کے لیے کون جائے گا؟ یہ اقدام صنعت کاری کی حوصلہ شکنی کرے گا جبکہ افراط زر میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت کے لیے سنگین مسائل پیدا کرے گا۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ڈالر کی قیمت کو افغان بارڈر کے ریٹ کے مساوی لانے کی آئی ایم ایف کی شرط کی اطلاعات ہیں اور شرح سود اور ڈالر کی بڑھتی قیمت تباہ حال معیشت کے تابوت  میں آخری کیل ثابت ہوگی۔‘

اشیائے خورونوش سمیت دیگر ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں 45 فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی ) کے صدر فراز الرحمان نے بھی سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 3 فیصد اضافے سے 20 فیصد مقرر کرنے اور انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت  285 روپے کی نئی تاریخی بلندی سے تجاوز کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے ادارہ شماریات نے رواں ہفتے بدھ کے روز جاری کی گئی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں گزشتہ ماہ فروری میں سال بہ سال 31.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جو 1974 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اشیائے خورونوش سمیت دیگر ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں 45 فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

شیئر: