Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدالتی اصلاحات کا بِل کابینہ سے منظور، قومی اسمبلی میں پیش

کابینہ سے منظورکردہ بل کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ ( فوٹو: سپریم کورٹ)
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت کسی بھی معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز کریں گے۔
وفاقی کابینہ نے خصوصی اجلاس میں عدالتی قانون میں اصلاحات کے لیے قانون سازی کے لیے  بل کے مسودے کی منظوری دی جس کا اعلان وزیراعظم شہباز شریف نے دن کو اپنے خطاب میں کیا تھا۔
کابینہ سے منظورکردہ بل کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ بل وزیرقانون اعظم نذیر تاڑر نے پیش کیا۔
بل پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں بعض ازخود نوٹس جگ ہنسائی کا باعث بنے ہیں، ازخود نوٹس کے استعمال سے سپریم کورٹ کے وقار کو نقصان پہنچا۔‘
’بعض ازخود نوٹسز سے سپریم کورٹ کی ساکھ متاثر ہوئی، سپریم کورٹ کے دو ججز کا جو موقف سامنے آیا ہے اس نے مزید تشویش پیدا کر دی ہے۔‘
بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کریں گے۔  از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اپیل دائر ہونے کے 14 روز کے اندر درخواست کو سماعت کے لئے مقرر کرنا ہوگا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے بروز بدھ 29 مارچ کو اراکین کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ جس میں عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری دی جائے گی۔
اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک کریں گے۔
قبل ازیں حکومت نے چیف جسٹس کے 184/3 کے تحت ازخود نوٹس کے اختیار پر قانون سازی اورسوموٹو ایکشن کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بھی موجود نہیں اور حکومت کے پاس قومی اسمبلی کے ایوان میں دو تہائی اکثریت بھی موجود نہیں ہے تو حکومت اس حوالے سے قانون سازی کیسے کر سکتی ہے۔ بالخصوص جب آئین کے آرٹیکل 184 کے تناظر میں ترامیم لائی جارہی ہیں۔
اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور محسن شاہ نواز رانجھا کا کہنا ہے کہ حکومت آئینی ترمیم نہیں کر رہی بلکہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کرتے ہوئے 184(3) کے تحت چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کر رہی ہے۔

بل کے مطابق کسی بھی معاملے پر از خود نوٹس لینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز کریں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ اس وقت دونوں ایوانوں میں حکمران اتحاد کے پاس کوئی بھی قانون پاس کرنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ارکان موجود ہیں۔
پارلیمانی امور کے ماہر اور سابق سیکرٹری سینیٹ افتخار اللہ بابر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ایوان میں اپوزیشن کی غیر موجودگی میں کوئی بھی ایسا بل جو عدلیہ سے متعلق اور ایسے وقت میں کیا جا رہا ہو جب حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی جاری ہو ایک متنازع عمل ہوگا۔
’یہ بل سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا اور اسی بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا جا سکتا ہے کہ بل پر پارلیمان کا حقیقی ویژن اپلائی نہیں کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ اخلاقی طور بھی اتنا بڑا پالیسی فیصلہ ایسے ایوان سے منظور کروانا درست نہیں ہوگا جس میں اپوزیشن برائے نام ہے۔
اسی حوالے سے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بات کرتے ہوئے سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد اور ماہر قانون سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پروسیجرل قوانین میں تبدیلی کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے تاہم سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی اپیل کا حق دینے سے تنازع پیدا ہوگا۔
وسیم سجاد نے کہا کہ عام قوانین میں اپیل کا حق تو ہوتا ہے لیکن 184(3) کے تحت فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے سے پہلے سپریم کورٹ کے ججز کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے اور جلدی میں قانون پاس نہیں کرنا چاہیے۔
وسیم سجاد اور سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوتا ہے اور سپریم کورٹ اس میں کسی بھی شق کو آئین کی کسی شق کے متصادم پاتی ہے تو وہ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ تاہم اس وقت سپریم کورٹ کے ججز خود اس اختیار کو ریگولیٹ کرنے کے حق میں ہیں تو اس قانون سازی کو کالعدم قرار دینا آسان نہیں ہوگا۔

شیئر: