Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیتن یاہو کے اقدامات سے اسرائیل اور عرب دنیا کے تعلقات خطرے میں: ماہرین

وزیراعظم نیتن یاہو کے متنازع اقدامات پر تنقید کی جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
اسرائیلی صحافی، سابق سفارتکار اور حکومتی وزرا نے اتفاق کیا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت میں فلسطینیوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات نے اسرائیل کے ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے، بالخصوص وہ ممالک جن کے ساتھ معاہدہ ابراہیمی طے پایا تھا۔
عرب نیوز کے مطابق مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے تحت منعقدہ ایک مباحثے میں شرکا نے کہا کہ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی جماعت کے پہلے تین ماہ ’افراتفری‘ کا شکار رہے اور اس کی پالیسیاں ’نسل پرستانہ’ اور ’حقیقت سے جدا‘ ہیں۔
دسمبر میں نیتن یاہو کے اقتدار میں آنے کے بعد سے فلسطینی مظاہروں کو پرتشدد حربوں کے ذریعے دبایا جا رہا ہے۔ جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں زیادہ سے زیادہ سماجی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں تقریباً ایک سو فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی صحافی براک راود نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت پہلے تین ماہ میں ہی تنزلی کا شکار ہو گئی ہے اور ہر اقدام کسی نہ کسی واقعے کے ردعمل میں اٹھایا جا رہا ہے۔
’اسرائیل کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ قدامت پسند حکومت ہے جس میں نسل پرستانہ اور یہودی بالادستی والے عناصر موجود ہیں جو اہم عہدوں پر فائز ہیں اور جن کا خارجہ تعلقات اور قومی سلامتی کے امور پر بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔‘
مباحثے کے شرکا نے اتفاق کیا کہ مغربی کنارے میں ہونے والے پرتشدد واقعات سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ملک  اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی غرض سے مزید معاہدے کرنے کو تیار نہیں جیسا کہ مراکش، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ ابراہیمی معاہدہ طے پایا تھا۔
اس موقعے پر اسرائیلی سابق وزیر برائے ڈائسپورا افیئرز نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا نیتن یاہو کے اتحادیوں کو علم ہے کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن انہیں اس کی پرواہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کی پالیسیوں سے امریکی انتظامیہ بھی برہم ہے جو اسرائیل کی سلامتی اور جمہوریت کے مضبوط حامی رہے ہیں۔

شیئر: