Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوڈیشہ ٹرین حادثہ: باپ کو ’مرا ہوا‘ بیٹا زندہ کیسے ملا؟

انڈیا میں کئی دہائیوں بعد پیش آنے والے ہولناک ٹرین حادثے میں معجزانہ طور پر ایک باپ کو اس کا بیٹا زندہ مل گیا ہے۔
دی ٹائمز آف انڈیا کے مطابق کورومنڈیل ایکسپریس پر سوار بیٹے کے باپ کو جب اس کی ’موت‘ کا علم ہوا تو اس نے اس خبر پر یقین کرنے کی بجائے 230 کلو میٹر فاصلہ طے کر کے بالاسور کے عارضی مُردہ خانے سے اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کے بعد مزید علاج کروانے کے لیے اسے اپنے ساتھ کولکتہ لے گیا۔
   24سالہ بِسواجیت ملک کو قسمت کے ستاروں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس کے والد ہیلا رام ملک نے اس کی موت کی خبر پر یقین نہیں کیا۔
بِسواجیت کی ہسپتال میں سرجری جاری ہے۔ وہ شدید زخمی ہے لیکن اُس کی حالت خطرے باہر ہے۔
بِسواجیت کے والد ہیلا رام مغربی بنگال کے شہر ہورا میں دوکاندار ہیں۔ انھیں حادثے کی خبر جمعے کے روز بِسواجیت کو شالیمار سٹیشن پر چھوڑنے کے چند گھنٹوں کے بعد ملی جس کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے کے موبائل فون پر کال کی، وہ شدید درد میں تھا لیکن زندہ تھا۔
بیٹے سے فون پر رابطہ ہونے کے بعد ہیلا رام نے وقت ضائع کیے بغیر مقامی ایمبولینس ڈرائیور پالاش پنڈت اور اپنے بہنوئی دیپک داس کو کال کی جس کے بعد وہ اُسی رات ان کے ساتھ بالاسور کے لیے روانہ ہوگئے۔
انھوں نے اُس رات 230 کلومیٹر سفر کیا لیکن انہیں بِسواجیت کہیں نہ ملا۔
دیپک داس کہتے ہیں کہ ’ہم نے ہار نہ مانی۔ ہم لوگوں سے معلوم کرتے رہے تاکہ ہمیں کوئی مزید سراغ مل جائے۔ ہمیں ایک شخص نے بتایا کہ اگر وہ ہسپتال نہ ملے تو پھر اسے باہانگا ہائی سکول ڈھونڈنا چاہیے جہاں لاشوں کو رکھا گیا ہے۔ ہم اس کی موت کو تسلیم نہیں کر رہے تھے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہمیں لاشیں دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہاں شور شرابا ہونا شروع ہوا جب کسی نے دیکھا کہ ایک ’مردہ‘ شخص کا دایاں ہاتھ کانپ رہا ہے، چونکہ ہم وہیں موجود تھے، ہم نے دیکھا کہ وہ ہاتھ بِسواجیت کا ہے، جو کہ بے ہوش ہے اور شدید تکلیف میں ہے۔ ہم اسے جلدی سے ایمبولینس میں ڈال کر بالاسور ہسپتال لے گئے جہاں اسے کچھ ٹیکے لگائے گئے۔ جیسے اس کی حالت تھی، اسے کٹک میڈیکل کالج ہسپتال ریفر کیا گیا لیکن ہم نے وہاں سے ڈسچارچ کروا لیا۔‘
ایمبولینس ڈائیور پالاش پنڈت نے بتایا کہ نوجوان سارے راستے میں بے ہوش رہا۔
ہم صبح ساڑھے آٹھ بجے ایس ایس کے ایم ہسپتال رُکے۔‘ بِسواجیت ابھی تک ہوش میں نہیں آیا، اتوار کے روز اس کے ٹخنے کی سرجری کی گئی ہے جبکہ پیر کے روز اُس کے ٹانگ کی دوبارہ سرجری کی جائے گی۔
اس کا دایاں ہاتھ جو کانپا تھا، اس میں کئی فریکچر ہیں۔
فورینزک میڈیسن کے ماہر سومناتھ داس کہتے ہیں کہ بِسواجیت ’سسپینڈڈ اینیمیشن‘ کی حالت میں تھا۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جب انسان کے وائٹلز یعنی جسم کا درجہ حرارت، بلڈ پریشر، سانس اور دھڑکن نہایت کم ہو جاتی ہے۔
اس حالت میں انسان کے جسمانی فنکشن عارضی طور پر سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں تاہم اس سے مریض کو دوائی کے ذریعے ٹھیک کیا جا سکتا ہے لیکن یہ حالت صدمے یا مخصوص واقعات جیسے پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔
سومناتھ داس کہتے ہیں کہ ’زخمیوں کی بڑی تعداد اور رش کی وجہ سے ڈاکٹروں اور طبی ماہرین کے پاس وائٹلز دیکھنے کا وقت نہیں تھا۔‘
ماہرین نے بھی کہا ہے کہ زیادہ ریسکیو آپریشن طبی ماہرین کے بجائے عام افراد نے کیا ہے۔ اس دوران اگر کوئی زخمی جواب نہیں دے پا رہا ہوگا تو اسے غلطی سے مُردہ تصور کیا گیا ہوگا۔

شیئر: