افغانستان میں خواتین کے لیے یونیورسٹیاں کھلنے کو تیار، طالبان قیادت کی منظوری کا انتظار
مولوی عبدالجبار نے کہا ہے کہ جیسے ہی ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کا حکم ہوگا یونیورسٹیاں خواتین کو دوبارہ داخلہ دینے کے لیے تیار ہوں گی (فوٹو: اے پی)
افغانستان میں محکمہ تعلیم کے حکام نے کہا ہے کہ یونیورسٹیاں خواتین کو دوباہ داخلہ دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن اس کی منظوری طالبان کی اعلٰی قیادت دے گی۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان نے گذشتہ برس دسمبر میں خواتین کی یونیورسٹی تعلیم پر پابندی لگا دی تھی اور اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد چھٹی جماعت سے اوپر لڑکیوں کو بھی سکول جانے سے روک دیا تھا۔
افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کی تعلیم پر پابندی لگائی گئی۔ افغانستان کے وزیر تعلیم ندا محمد ندیم نے کہا تھا کہ یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم پر پابندی لازمی تھی کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ کچھ کورسز اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندی طالبان کے سپریم کمانڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی طرف سے لگائی گئی تھی۔
وزارت تعلیم کے مشیر مولوی عبدالجبار نے کہا ہے کہ جیسے ہی ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کا حکم ہوگا یونیورسٹیاں خواتین کو دوبارہ داخلہ دینے کے لیے تیار ہوں گی، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حکم کب آئے گا اور کبھی آئے گا بھی یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا یونیورسٹیاں بند کر دو، اس لیے بند ہیں۔ جب وہ کہیں گے کھول دو تو اسی دن کھل جائیں گی۔ ہمارے تمام رہنما خواتین کی تعلیم کے حق میں ہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے وزیر اس حق میں ہیں۔‘
جب پابندی لگائی گئی تو وزیر تعلیم ندا محمد ندیم نے کہا تھا کہ یہ پابندی عارضی ہے اور جب مخلوط تعلیم، نصاب اور ڈریس کوڈ کا مسئلہ حل ہو جائے گا تو یونیورسٹیاں دوبارہ کھول دی جائیں گی۔
اسی طرح طالبان نے ہائی سکول کی طالبات کی تعلیم کے بارے میں بھی کہا تھا کہ یونیفارم اور ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ’تکنیکی مسائل‘ حل ہونے کے بعد تعلیمی سرگرمیاں بحال کر دی جائیں گی، لیکن ایسا ابھی تک ہوسکا۔
مولوی عبدالجبار کا کہنا ہے کہ ’ہر چیز تیار ہے، چاہے وہ یونیورسٹی ہو یا سکول۔ ہو سکتا ہے کہ لڑکے صبح کے وقت آئیں اور لڑکیاں شام کے وقت، یا پھر لڑکیاں صبح اور لڑکے شام کو۔‘