Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی ٹیم کے واحد زندہ کوہ پیما کانچا شرپا

نیپالی شرپا 1953 میں چوٹی سر کرنے والی ہلیری ٹینزنگ مہم کا حصہ تھے۔ فوٹو کانچا فاؤنڈیشن
دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پرہجوم ہو جانے کے باعث صاف ستھری نہیں رہی جب کہ اس اہم پہاڑ کو بہت صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پہلی بار ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی ٹیم کے واحد زندہ بچ جانے والے91 سالہ کوہ پیما کانچا شرپا نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔

ماؤنٹ ایورسٹ کے لیے بیس کیمپ سے چوٹی تک راستہ بنایا تھا۔ فائل فوٹو اے ایف پی

نیپالی کوہ پیما اس ٹیم کے 35 ارکان میں شامل تھے جنہوں نے 29 مئی 1953کو نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہلیری اور ان کے شرپا گائیڈ ٹینزنگ نورگے کو 8849 میٹر کی چوٹی پر چڑھنے میں مدد کی تھی۔
شرپا کانچا نے گذشتہ روز ہفتے کو کھٹمنڈو میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کے لیے بہتر ہو گا کہ یہاں کوہ پیماؤں کی تعداد کو کم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ماؤنٹ ایورسٹ کو اب تک ہزاروں بار سر کیا جا چکا ہے اور ہر سال اس چوٹی پر کوہ پیماؤں کا ایک بڑا ہجوم موجود ہوتا ہے۔

کوہ پیمائی کے موسم کے دوران 2023  کے موسم بہار میں 667 کوہ پیماؤں نے چوٹی سر کی ہے جب کہ مارچ تا مئی کے درمیان ہزاروں کی تعداد میں امدادی عملہ بیس کیمپ تک پہنچا ہے۔
ایک عرصہ سے پہاڑ پر رہنے والے لوگ  یہاں پھیلنے والے کوڑے کرکٹ اور فضلے کو ٹھکانے لگانے  کے بارے میں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں تاہم کوہ پیماؤں کو جاری کیے جانے والے اجازت ناموں کی تعداد  کم کرنے کا حکام کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔
ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت کوہ پیماؤں کو کوڑا کرکٹ، فاضل سامان اور ہر وہ چیز جو وہ پہاڑ پرلے جاتے ہیں واپس نیچے لانا ضروری ہے لیکن ان قوانین پرعمل زیادہ موثر نہیں۔

یہاں آنے والے کوہ پیما خوراک کے خالی ڈبے، ریپنگ اور بہت سا دیگر کچرا پھینک دیتے ہیں اب اسے کون اٹھائے گا۔
کچھ کوہ پیما کچرے دانوں کا استعمال کرتے ہیں جو وقتی طور پر نظر نہیں آتا لیکن موسمی تبدیلی کے بعد برف پگھلنے کے ساتھ ہی یہ ساری گندگی نیچے کی طرف بہنا شروع ہو جاتی ہے۔
یہاں موجود شرپاوں کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ انتہائی محترم ہے جس کی شرپا برادری بڑی عزت کرتی ہے اور  عام طور پر چوٹی پر جانے سے قبل وہ یہاں مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔

نیپالی کانچا نوجوان تھے جب 1953 میں ہلیری اور ٹینزنگ کی چوٹی سر کرنے کی مہم  کا حصہ تھے۔
وہ ہلیری اور ٹینزنگ کے ساتھ ایورسٹ پر آخری کیمپ جانے والے تین شرپاوں میں شامل تھے اور مزید اوپر اس لیے نہیں جا سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس پرمٹ نہیں تھا۔
انہوں نے اس کامیاب چڑھائی کے بارے میں سب سے پہلے ریڈیو پر سنا اور پھر ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی جوڑی کے ساتھ کیمپ 2 میں شامل ہو گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم سب کیمپ 2 میں جمع ہوئے اور  چائے ناشتے کے ساتھ جشن منایا اس کے بعد وہاں موجود استعمال شدہ جو سامان اکٹھا کر سکتے تھے اسے واپس بیس کیمپ تک  لے  آئے۔
91 سالہ شرپا نے بتایا کہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے لیے بیس کیمپ سے چوٹی تک جو راستہ انہوں نے بنایا تھا کوہ پیما اب بھی وہی راستہ استعمال کرتے ہیں۔
شرپا کانچا کے چار بچے، آٹھ پوتے اور ایک نواسی ہے۔ یہ خاندان ماؤنٹ ایورسٹ کے دامن میں نامچے گاؤں میں ایک ساتھ رہتا ہے، جہاں سب مل کر ایک چھوٹا سا ہوٹل چلاتا ہیں جو ٹریکرز اور کوہ پیماؤں کے لیے کیٹرنگ کا انتظام کرتا ہے۔
 
فوٹوز: بشکریہ کانچا فاؤنڈیشن

شیئر: