Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل بین الاقوامی صحافیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دے: برطانوی صحافی پیئرز مورگن

پئیرز مورگن نے کہا کہ فلسطین کی تاریخ کے بارے میں ان کی ابتدائی سوچ اور نظریات یوسف کے انٹرویو کے بعد بدل گئے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
برطانوی صحافی پیئرز مورگن نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے۔
بدھ کے روز دبئی میں عرب میڈیا سمٹ میں گفتگو کرتے ہوئے پیئرز موگن کا کہنا تھا کہ ’یہ مضحکہ خیز ہے کہ اسرائیل کے پاس صلاحیت ہے کہ وہ بین الاقوامی صحافیوں کو رپورٹنگ سے روک سکے، تاکہ وہ معلومات اور حقائق کو چیلنج نہ کر سکیں جو اسرائیلی حکومت فراہم کر رہی ہے، جو کہ درست نہیں ہیں۔‘
پئیرز مورگن نے کہا کہ صحافیوں کے لیے یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ غزہ میں اصل میں کیا ہو رہا ہے کیونکہ اسرائیل میڈیا اداروں کو داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ ’صحافیوں کو اندر جانے دیں، پھر ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ آیا اسرائیل جو کچھ کہہ رہا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ وہ صحافیوں کو اندر نہیں جانے دے رہے ہیں یہ بہت کچھ بتا رہی ہے۔‘
اکتوبر 2023 میں جب اسرائیل نے غزہ پر فوجی حملہ شروع کیا، تو پئیرز مورگن نے مصری مزاحیہ فنکار باسِم یوسف کا انٹرویو کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’باسم یوسف نے مجھے پچھلے 75 سال کے تنازع پر ایک مکمل تاریخی سبق دیا۔ مجھے عرب دنیا کی جانب سے اسرائیل کے حق میں ہونے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن میں نے ہمیشہ اپنی پروگرامز میں فلسطین کے حامی مہمانوں کو زیادہ جگہ دی ہے جتنی کسی اور شو نے نہیں دی، اور میں نے یہ جان بوجھ کر کیا۔‘
ان کا باسم یوسف کے ساتھ انٹرویو وائرل ہو گیا تھا اور 2.3 کروڑ سے زائد بار دیکھا گیا۔
پئیرز مورگن نے کہا کہ فلسطین کی تاریخ کے بارے میں ان کی ابتدائی سوچ اور نظریات یوسف کے انٹرویو کے بعد بدل گئے۔
’میرا ابتدائی موقف یہ تھا کہ اسرائیل کو اکتوبر 7 کے حملے کے بعد اپنے دفاع کا بنیادی حق اور فرض حاصل ہے۔ لیکن میرا سوال شروع سے یہی رہا کہ ’ایک مناسب جواب کیا ہوتا ہے؟‘ میرا خیال ہے کہ جو کچھ حالیہ مہینوں میں ہوا، خاص طور پر ناکہ بندی اور بمباری کے بعد، وہ حد پار کر چکا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میرا مؤقف بدلا ہے اور آگے بڑھا ہے، لیکن میں اپنی ابتدائی پوزیشن کا حد سے زیادہ دفاع نہیں کرتا۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ مضبوط اور منصفانہ رہوں، اور دونوں فریقوں کو پلیٹ فارم دوں تاکہ کسی حل تک پہنچا جا سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا کام کسی بھی کہانی میں فریق بننا نہیں ہے۔ میرا کام ایک صحافی کا ہے، سب کو جوابدہ ٹھہرانا، سچ تک پہنچنا اور حقائق کو واضح کرنا۔‘

شیئر: