Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کالاباغ ڈیم کے بارے میں چند اہم حقائق، عامر خاکوانی کا کالم

سندھ میں سمندر کا نمکین کھارا پانی ساحلی علاقوں کی زمینوں کی طرف رخ کرتا اور کٹاؤ کرتا ہوا زرعی اراضی برباد کر دیتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بعض ایشوز ایسے ہوتے ہیں جن پر طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا اور تنازع برقرار رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک ایشو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا بھی ہے۔ اس پر اتنا زیادہ لکھا جا چکا ہے، لاتعداد مباحثے، ٹاک شوز، پوڈکاسٹ، انٹرویوز اور نجانے کیا کیا کچھ کہا گیا۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کا موقف سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ دوسرے کی بات سنے، پڑھے بغیر ہی رد کر دی جاتی ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ حقیقت ان دونوں کے درمیان میں کہیں موجود ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس ایشو کے حوالے سے بعض ایسے بنیادی حقائق سامنے لائے جائیں جن پر عام طور سے بات نہیں ہوتی۔ خاص کر پنجاب کا میڈیا ان سے خاصا بے خبر ہے۔

کالاباغ ڈیم کے مثبت نکات

کالا باغ ڈیم کا مجوزہ منصوبہ میانوالی کے قریب کالاباغ کے مقام پر ایک بڑا سٹوریج والا ڈیم بنانا ہے جس میں چھ ملین ایکڑ فٹ کے لگ بھگ پانی ذخیرہ کیا جا سکے گا۔ اس پروجیکٹ سے اندازے کے مطابق 3600 میگا واٹ بجلی بھی پیدا ہو گی۔
اس پروجیکٹ کے بارے میں دو تین باتیں اہم ہیں:
ایک تو یہ کہ اس کی جغرافیائی پوزیشن بڑے ڈیم کے لیے نہایت موزوں ہے۔ اس لیے اسے بنانا بھی آسان ہے، جلد تعمیر ہو جائے گا۔
کالاباغ ڈیم کے لیے بہت سی سٹڈیز بھی ہو چکیں اور نہایت آسانی کے ساتھ عالمی بینک وغیرہ سے فنڈنگ بھی ہوجائے گی۔ کسی دوسرے بڑے ڈیم کے لیے شاید یہ اتنا آسانی سے ممکن نہ ہو پائے۔
کالاباغ ڈیم اگر بن جائے تو تربیلا کی موجودہ کیپسٹی کے لگ بھگ پانی ہم مزید ذخیرہ کر سکیں گے۔ دریائے سندھ میں کسی سیلاب کے موقع پر یہ پانی جمع کر کے سیلابی ریلوں کا زور توڑا جا سکے گا اور جنوبی پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقے زیرِآب آنے سے بچ جائیں گے۔ سنہ 2010 کا سیلاب ذہن میں لے آئیں، جس نے سندھ میں بہت تباہی پھیلائی۔ کالاباغ ڈیم سے 3600 میگاواٹ سستی بجلی ملے گی جبکہ ہزاروں ایکڑ زرعی زمین مزید کاشت کی جا سکے گی۔

پنجاب کا واحد بڑا ڈیم پروجیکٹ

پاکستان کے دیگر بڑے ڈیمز میں سے تربیلا، ہری پور خیبر پختونخوا میں ہے، جبکہ منگلا ڈیم میرپور پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر، زیرِتعمیر بھاشا ڈیم گلگت بلتستان، زیرِتعمیر مہمند ڈیم ضلع مہمند خیبر پختونخوا میں ہیں۔ دیگر چھوٹے سٹوریج ڈیم بھی خیبر پختونخوا ہی میں ہیں۔
کالاباغ ڈیم واحد میگا ڈیم پروجیکٹ ہے جو پنجاب میں بن سکتا ہے یا بننے کا امکان ہے۔

اے این پی کا موقف ہے کہ کالاباغ ڈیم کی جھیل اوور فلو ہو کر نوشہرہ تک پہنچ کر وہاں کے نشیبی علاقے ڈبو سکتی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا میں کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیوں؟

کالاباغ ڈیم دریائے سندھ پر بننا ہے، یہ دریا خیبر پختونخوا سے بہتا ہوا پنجاب میں داخل ہوتا ہے۔ اس مجوزہ ڈیم کا سٹرکچر پنجاب میں بنے گا تاہم اس کی جھیل یعنی ریزروائر کا کچھ حصہ خیبر پختونخوا میں بھی آتا ہے۔ ایک اندیشہ یہ ظاہر کیا گیا کہ کالا باغ ڈیم کی جھیل کا بیک واٹر (Backwater) دریائے سندھ میں اوپر کی طرف پھیلے گا۔ بعض ماہرین نے اعتراض کیا کہ کالاباغ ڈیم کی جھیل اوور فلو ہو کر نوشہرہ تک پہنچ کر وہاں کے نشیبی علاقے ڈبو سکتی ہے۔ یہی موقف اے این پی نے ہمیشہ نمایاں طور پر اپنایا۔
واپڈا اور ڈیم کے حامی انجینیئرز کا کہنا ہے کہ ڈیم کا فل سپلائی لیول (Full Supply Level) اس طرح رکھا گیا تھا کہ بیک واٹر نوشہرہ تک نہیں پہنچے گا۔ انہوں نے ہائیڈرو لوجیکل سٹڈیز کی بنیاد پر کہا کہ نوشہرہ کے براہِ راست ڈوبنے کا خطرہ نہیں۔ تاہم مخالفین یہ دلیل دیتے ہیں کہ شدید بارش یا سیلاب کے دوران بیک واٹر مزید اوپر جا سکتا ہے۔ دریائے کابل کے پانی کے اضافے کے ساتھ مل کر نوشہرہ کے لیے سیلابی خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
بدقسمتی سے یہ ایک ٹیکنیکل بحث کے بجائے سیاسی ایشو بن گیا، اگرچہ اسی وجہ سے کالاباغ ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کر کے اس کی بلندی 10 فٹ کم کی گئی تاکہ کسی بڑے سیلاب کے موقعہ پر نوشہرہ کو نقصان نہ پہنچ سکے۔ سائنسی طور پر اب شاید اتنا خطرہ موجود نہیں، تاہم خیبر پختونخوا کی قوم پرست جماعتیں آج بھی اسی عذر کی بنا پر کالاباغ ڈیم کی مخالف ہیں۔ البتہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک وغیرہ میں کالاباغ ڈیم کی حمایت موجود ہے کیونکہ انہیں اس کے بعد لنک کینال مل سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے وزیراعلٰی علی امین گنڈا پور نے کالاباغ ڈیم کے حق میں بیانات دیے ہیں۔ البتہ نوشہرہ، صوابی اور مردان سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی شاید یوں کھل کر حمایت نہیں کر سکیں گے۔

بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم سے جڑے ٹیکنیکل معاملات سیاسی ایشو بن گئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سندھ میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت کیوں؟

اسے سمجھنا ضروری ہے کیونکہ پنجاب میں سندھی ماہرین کے تحفظات اور رائے کو درست طور پر سمجھا اور جانا ہی نہیں گیا۔ پنجاب میں بے شمار ماہرین کی یہ رائے اور خیال ہے کہ چونکہ ہم نے کالاباغ جیسے بڑے ڈیمز نہیں بنائے اس لیے ہمارا کئی ملین ایکڑ فٹ پانی (عام طور سے اس کی مالیت اربوں ڈالر کہہ دی جاتی ہے) سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اور سیاست کی وجہ سے ملک کو یہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔

صورتحال کا دوسرا رخ

یہ بڑی دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ ہم جس پانی کے سمندر میں گرنے کو ضائع ہونا سمجھتے ہیں وہ سندھ کے لاکھوں لوگوں کے لیے زندگی کی علامت ہے، وہ اسے اپنی معیشت، کاروبار، سماجی زندگی کے لیے آکسیجن جتنا اہم سمجھتے ہیں۔
دراصل پنجاب، خیبر پختونخوا کے لوگوں کا سمندر سے واسطہ ہی نہیں پڑا۔ سمندر سندھ اور بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔ بلوچستان کی صورت حال مختلف ہے، مگر سندھ کے ساحلی اضلاع سمندری پانی کی زد میں ہیں۔ سمندر دیکھنے میں رومینٹک اور خوبصورت لگتا ہے، لیکن اس کا نمکین کھارا پانی ساحلی علاقوں کی زمینوں کی طرف رخ کرتا اور کٹاؤ کرتا ہوا زرعی اراضی برباد کر دیتا ہے۔ پچھلے بہت سے برسوں سے یہ سب سندھ میں ہو رہا ہے۔ سمندری پانی ہر چیز کھا رہا ہے۔ سمندری پانی کو صرف دریاؤں کا میٹھا پانی ہی روک سکتا ہے۔
اس لیے ہم جس پانی کے سمندر میں گرنے کو ضائع ہونا سمجھتے ہیں، وہ دراصل سمندری پانی کی ساحلی زمین پر مداخلت روکتا ہے۔ اگر دریائے سندھ کا یہ پانی ڈاؤن سٹریم کوٹری بہتا ہوا سمندر میں نہیں جائے گا تو پھر اگلے چند برسوں کے دوران مزید کئی لاکھ ایکڑ اراضی سمندر کے خوفناک شکنجے میں چلی جائے گی اور وہاں کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔

بدین، ٹھٹہ اور سجاول میں مجموعی طور پر 20 لاکھ ایکڑ اراضی کھاری پانی سے بنجر ہو چکی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سندھ کے ڈیلٹا کی اہمیت

تکنیکی طور پر ڈیلٹا وہ علاقہ ہے جہاں بڑا دریا سمندر میں جا کر گرتا ہے اور اپنی کئی شاخوں (Distributaries) میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دراصل دریا اپنے ساتھ ریت، مٹی، غذائی اجزا (silt) لاتا ہے اور سمندر کے کنارے پھیلا دیتا ہے۔ اس طرح ایک وسیع، زرخیز اور جال نما خطہ بنتا ہے جسے ڈیلٹا کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ کچے کا علاقہ ڈیلٹا نہیں کہلاتا۔
دریائے سندھ کا ڈیلٹا یعنی انڈس ڈیلٹا سمندر تک دریائی پانی پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ انڈس ڈیلٹا دریائے سندھ کے آخری حصے پر واقع ہے، جہاں یہ دریا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ڈیلٹا کو سالانہ کم از کم 10 سے 12 ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہے تاکہ سمندر کی کھاری لہر (Sea Intrusion) آگے نہ بڑھے۔ سندھ کا ڈیلٹا گذشتہ 15 20 برسوں میں خاصا سکڑ گیا ہے، اس لیے کہ ہر برس اتنا پانی ڈیلٹا سے گزر کر سمندر میں نہیں جا پا رہا۔ بعض برسوں میں تو کم بارشیں ہونے سے اس کی شرح بہت ہی کم رہی۔
یہی وجہ ہے کہ سمندر سندھ کے تین اہم ساحلی اضلاع بدین، ٹھٹہ اور سجاول کے مضافات میں 50 کلومیٹر تک اندر گھس چکا ہے۔ کچھ اثرات حیدرآباد کے کچے کے علاقے اور کراچی کی مشرقی ساحلی پٹی پر بھی دیکھے گئے ہیں۔ بدین بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سمندر سے ان اضلاع میں مجموعی طور پر 20 لاکھ ایکڑ (کِلہ) اراضی کھاری پانی سے بنجر ہو چکی ہے۔ زیرِزمین پانی بھی متاثر ہو رہا ہے، کئی دیہات نقل مکانی کر چکے ہیں۔
سندھ کے ماہرین، دانشور اور سیاستدانوں کو خدشہ ہے کہ کالا باغ ڈیم سے یہ بہاؤ مزید کم ہو جائے گا، جس سے سمندری پانی ٹھٹھہ اور بدین کے ساحلی علاقوں میں زمین کو مزید بنجر بنا دے گا۔

مینگروز کھارے اور میٹھے پانی کے ملاپ سے اُگتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ڈیلٹا کی زمین کیسی ہوتی ہے؟

یہ زمین عام زرعی زمین سے مختلف ہوتی ہے۔ زیادہ تر جگہیں دلدلی، نیم دلدلی، جھیل نما یا نمکین/میٹھے پانی کا ملا جلا ماحول رکھتی ہیں مگر یہی مٹی سمندر کے کنارے نئی زمین بناتی ہے اور بہت زرخیز بھی ہوتی ہے۔ یہاں کھیت بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اصل خاصیت دلدلی زمین اور آبی نظام ہے۔ یہاں مینگروز اُگتے ہیں، جو سمندری طوفانوں سے دفاع کرتے ہیں۔ یہ ہزاروں پرندوں، مچھلیوں اور جھینگوں کا قدرتی مسکن ہے۔

مینگروز، پلہ مچھلی اور جھینگے

سندھ کے ساحلی علاقے میں مینگروز  (Mangroves)کا بہت بڑا ذخیرہ تھا، چند برس پہلے تک یہ دنیا میں پانچویں نمبر پر تھا، مگر پھر پانی کی کمی سے یہ تیزی سے کم ہوئے۔ مینگروز کھارے اور میٹھے پانی کے ملاپ سے اُگتے ہیں۔ یہ مٹی کو باندھ کر رکھتے ہیں، طوفانوں اور سونامی نما لہروں کے سامنے قدرتی ڈھال ہیں۔ یہاں مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائش ہوتی ہے، یہ ایک ’نرسری‘ ہیں۔ ماہی گیری کا پورا سسٹم انہی مینگروز سے جڑا ہے۔ اگر مینگروز نہ ہوں تو مچھلی اور جھینگے کی پیداوار ختم ہو جائے۔ یاد رہے کہ اگر ڈیلٹا سے دریائی پانی کم گزر کر سمندر میں جائے گا تو مینگروز کے جنگلات بھی تباہ ہو جائیں گے۔
مینگروز سے جڑا ہوا معاملہ سندھ کی مشہور پلہ مچھلی کا ہے۔ پلہ کا سائنسی نام ہلسا ہے، یہ سمندر کی مچھلی ہے، مگر افزائش کے لیے انڈے دریائی پانی میں مینگروز کے اندر آ کر دیتی ہے۔ مینگروز کے ذخائر بڑے ہوں تو پلہ مچھلی بھی افراط سے ملتی ہے۔ ماضی میں پلا سندھ کی ثقافت اور معیشت دونوں کا حصہ تھی۔ ہزاروں ماہی گیر خاندان صرف پلا کے شکار پر انحصار کرتے تھے۔ اب پلہ مچھلی کی آبادی 80 فیصد تک کم ہو چکی ہے، جس سے ماہی گیر خاندانوں کوسالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ سنہ 1974 میں سندھ سے نو ہزار ٹن پلہ مچھلی سالانہ پکڑی جاتی تھی، اب یہ صرف 300 ٹن رہ گئی ہے۔

پلہ مچھلی سے ڈیلٹا میں رہنے والے ماہی گیروں کی معیشت وابستہ ہے۔ (فائل فوٹو: محمد حسین خان)

ہمارے ہاں بہت سے لوگ پلہ مچھلی کو شاید عیاشی یا ایک لذیز ڈش سمجھتے ہوں گے، مگر اس سے ڈیلٹا میں رہنے والے ہزاروں ماہی گیروں کی معیشت وابستہ ہے۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر کی منڈیوں میں پلہ فش کی طلب اب بھی زیادہ ہے، مگر سپلائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں ماہی گیر بے روزگار ہو چکے۔ اگر دریائی پانی بڑھے اور اچھی پلاننگ کی جائے تو پھر سے پلہ یعنی ہلسا مچھلی کی ایکسپورٹ بڑھ سکتی ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی قومی مچھلی ہے اور بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔
یہی معاملہ جھینگے یعنی شرمپس کا ہے۔ جھینگوں کے بچے (larvae) مینگروز کی جڑوں اور ڈیلٹا کے دلدلی علاقوں میں پلتے ہیں۔ اگر مینگروز اور میٹھا پانی کم ہو تو یہ نسلیں کمزور پڑتی ہیں۔ سندھ کا جھینگا ایک بڑا برآمدی آئٹم ہے۔ کراچی فش ہاربر سے سالانہ لاکھوں ڈالر کا جھینگا خلیجی ممالک، یورپ اور چین کو جاتا ہے۔ اگر ڈیلٹا مزید سکڑتا رہا تو یہ برآمدات بھی متاثر ہوں گی، جس سے قیمتی زرمبادلہ میں کمی ہو گی۔
اس لیے انڈس ڈیلٹا صرف ایک ’ماحولیاتی مسئلہ‘ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی فوڈ سکیورٹی، برآمدات اور مقامی سندھی آبادی کے روزگار کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پلا مچھلی کا غائب ہونا صرف ایک علامت ہے کہ اگر ڈیلٹا کو پانی نہ ملا تو جھینگے اور مینگروز کی معیشت بھی ختم ہو جائے گی۔

کرنا کیا چاہیے؟

یہ درست ہے کہ پاکستان کو اپنے پانی کو ذخیرہ کرنے کی سکت بڑھانی چاہیے، ہم اپنی ملکی ضرورت کے صرف 30 روز کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں جبکہ عالمی سٹینڈرڈ کے مطابق کم سے کم ملکی ضرورت کا چار ماہ کا پانی سٹور ہونا چاہیے۔ ہمیں ڈیم بنانے پڑیں گے، لیکن اہل سندھ کے تحفظات کو سنجیدگی سے لیں۔ ان کے مطالبات کو صرف تعصب اور سیاسی کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔

مہمند ڈیم تو اس برس مکمل ہو جانا چاہیے تھا، وہ کیوں نہیں بن پایا؟ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سندھ کے ڈیلٹا کو ’نظرانداز‘ کر کے پانی کا ذخیرہ بڑھانے کا مطلب یہ ہو گا کہ سندھ کا ساحل بنجر، ماہی گیر برباد، اور سمندر اندر گھس آئے گا۔ اس لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ دیامیر بھاشا کی طرح اپ سٹریم بڑے ڈیمز بنا کر چار ماہ کے لیے پانی کا ذخیرہ حاصل کیا جائے۔ اس کے ساتھ انڈس ڈیلٹا کے لیے پانی مختص کر کے کم از کم 10 سے 12 ملین ایکڑ فیٹ پانی سمندر تک پہنچنے دیا جائے۔

کالاباغ ڈیم کے متبادل آپشنز

اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا باغ ڈیم مفید منصوبہ ہے اور اگر اعتماد کا رشتہ موجود ہو، انڈس ڈیلٹا کے لیے کم از کم پانی کی حد مقرر کی جائے، جس پر عمل ہو تو کالاباغ ڈیم کا سندھ کو نقصان نہیں ہو گا، تاہم یہ منصوبہ بہت زیادہ متنازع ہو چکا۔
میری رائے میں ہمیں 10 برسوں کے لیے کالاباغ ڈیم کو بھول کر جو بڑے ڈیم زیرِتعمیر ہیں وہ بنا لیں۔ جیسے دیامیر بھاشا پر اپنا پورا زور لگا کر اسے جلد بنا لیں۔ اسی طرح مہمند ڈیم تو اس برس مکمل ہو جانا چاہیے تھا، وہ کیوں نہیں بن پایا؟ چنیوٹ کے مقام پر ایک مڈ لیول ڈیم بن سکتا ہے، وہ بنا لیں۔
پنجاب کے بیراجوں کی اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے، ممکن ہو تو نئے بیراج بھی بنائے جائیں۔ اس لیے کہ قوی امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی انڈیا سے سیلابی پانی راوی، ستلج، چناب اور جہلم میں آئے۔ اس کے ساتھ سندھ کے ڈیلٹا کو بڑھانے، مینگروز کا رقبہ بڑھانے اور پلہ مچھلی، جھینگے کو پروموٹ کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ چند برسوں میں سندھ کا ڈیلٹا بہتر ہوجائے، بدین، ٹھٹھہ وغیرہ کی زمین برباد ہونا رک جائے گی تو کالاباغ ڈیم کی مخالفت بھی کم ہو سکتی ہے۔ تب اتفاق رائے سے بن سکتا ہے تو بنا لیں، ورنہ دیگر آپشنز پر جائیں۔ ایسے ہر بار لاحاصل کام میں اپنی انرجی کیوں ضائع کی جائے؟

 

شیئر: