Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ دھماکے کے بعد اپوزیشن جماعتوں میں یکجہتی: کیا بلوچستان میں نیا سیاسی اتحاد بننے جا رہا ہے؟

کوئٹہ میں 2 ستمبر کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے جلسے کے باہر ہونے والے خودکش بم دھماکے اور اس کے رد عمل میں سخت احتجاج اور مؤثر ہڑتال نے بلوچستان کی بلوچ پشتون قوم پرست جماعتوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔
ان بڑھتی ہوئی قربتوں نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا یہ جماعتیں جو کبھی ایک دوسرے کی سخت مخالف رہی ہیں اب کسی نئے سیاسی اتحاد میں اکٹھی ہو سکتی ہیں یا یہ صرف وقتی یکجہتی ہے؟
سابق وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقع پر منعقدہ جلسے میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل سینیٹر کبیر محمد شہی، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، تحریک انصاف کے صوبائی صدر دادؤ کاکڑ دیگر جماعتوں کے رہنما بھی موجود تھے۔
جلسے کے دوران دھماکہ اس وقت ہوا جب قائدین وہاں سے کچھ دیر قبل گزر چکے تھے تاہم حملے میں بی این پی کے 14 کارکنوں اور ایک پولیس اہلکار ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
دھماکے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی لیکن ان جماعتوں کا مؤقف ہے کہ یہ محض دہشت گردی نہیں بلکہ بلوچستان کی حقیقی سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹانے اور صوبے کی آواز دبانے کی سازش تھی۔
تاریخ کی کامیاب ترین ہڑتالوں میں سے ایک
سانحے کے بعد بی این پی، پشتونخوا میپ، اے این پی، نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت مسلمین نے مشترکہ احتجاج اور ہڑتال کی کال دی۔
8 ستمبر کو ہونے والی ہڑتال کے دوران ان جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اکٹھے نکل کر احتجاج ریکارڈ کرایا-
صوبے کے بیشتر شہروں میں سڑکیں سنسان اور کاروبار بند رہے۔ مبصرین اسے بلوچستان کی حالیہ تاریخ کی کامیاب ترین  ہڑتالوں میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔
حکومت کا سخت ردعمل اور مظاہرین کے درمیان ساتھ جھڑپیں

کوئٹہ میں 2 ستمبر کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے جلسے کے باہر خودکش دھماکہ ہوا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

احتجاج کے دوران حکومت نے بھی سخت رد عمل دیا۔ کوئٹہ سمیت مختلف اضلاع میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ کوئٹہ اور دیگر اضلاع میں چھ سیاسی جماعتوں کے 250 سے زائد کارکنوں اور کئی اہم رہنمائوں و سابق پارلیمنٹرینز کو گرفتار کیا گیا۔
اس صورتحال نے بی این پی، نیشنل پارٹی، پشتونخوا میپ اور اے این پی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین کو یکجہتی کی جانب راغب کیا۔
ان میں سے بیشتر جماعتیں تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان کے نام سے اپوزیشن کے قومی اتحاد کا حصہ ہیں تاہم اب نیشنل پارٹی اور اے این پی کے بھی اس اتحاد میں شمولیت یا پھر قومی یا بلوچستان کی سطح پر کسی نئے اتحاد کا حصہ بننے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
صوبائی جماعتوں کا اتحاد کس حد تک مضبوط ثابت ہوگا
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ صوبے کی جماعتوں کے ممکنہ اتحاد کے حوالے سے پر امید ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 8 ستمبر کی ہڑتال کے دوران جماعتوں کے اکٹھے ہونے پر عوام نے بھرپور اعتماد اور حمایت کا اظہار کیا ۔ دوسرے مرحلے میں 11 ستمبر کو بلوچستان کے تمام اضلاع میں احتجاجی مظاہرے ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ 13 ستمبر کو ان جماعتوں کا اہم سربراہی اجلاس بلایا گیا ہے جس میں بی این پی کے سردار اختر مینگل، پشتونخوا میپ کے  چیئرمین محمود خان اچکزئی، اے این پی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ شریک ہوں گے اور مستقبل کے اتحاد اور لائحہ عمل پر غور ہوگا۔

سابق وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقع پر کوئٹہ میں جلسہ منعقد ہوا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق مرکزی سیکریٹری جنرل سینیٹر جان محمد بلیدی نے کہا کہ ان کی پارٹی کی بھی یہی خواہش ہے کہ قوم پرست جماعتیں اکٹھی ہوں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی بھی اس مقصد کے لیے دو بار کوئٹہ آچکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ جماعتیں پہلے بھی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں ساتھ رہی ہیں۔ ہم پہلے بھی اکٹھے تھے لیکن جب کامیابی ہوئی تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتوں نے اقتدار کے حصول کے بعد ہمیں چھوڑ دیا۔
ان کے بقول ’ہماری اب بھی بڑی جماعتوں کے ساتھ جڑنے کی خواہش ہےلیکن تجربہ یہی رہا ہے کہ جب بھی وہ کسی سمجھوتے یا اقتدار میں شریک ہوئیں تو قوم پرست قوتوں کو تنہا چھوڑ دیا۔ جب تک ہم  قو م پرست جماعتیں خود مضبوط نہیں ہوں گی کل کو تحریک انصاف بھی ایسا ہی کرے گی۔‘
جان بلیدی کے مطابق ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ  ہم الیکشن ایک ساتھ لڑیں گے یا نہیں لیکن اگر نیشنل پارٹی، بی این پی، اے این پی، پشتونخوا میپ اور جے یو آئی اکٹھی ہو جائیں تو عوام کے مفاد میں بہترین ہوگا کیونکہ یہی صوبے کی حقیقی عوامی قوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2 ستمبر کے خودکش حملے میں صوبے کی پوری قیادت نشانے پر تھی جس کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ اس قیادت کا اکٹھا ہونا قابلِ قبول نہیں۔
’اگر ہم اس موقع پر اکٹھے نہ ہوئے تو اس سے ہمارا نقصان ہوگا لہٰذا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ امید ہے 13 ستمبر کے اجلاس میں مثبت پیشرفت ہوگی۔‘
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال نے اردو نیوز کو بتایا کہ موجودہ تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان میں بیشتر جماعتیں شامل ہیں البتہ نیشنل پارٹی اور اے این پی کا حصہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے اتحاد کی ضرورت نہیں البتہ موجودہ اتحاد کو وسیع کیا جا سکتا ہے۔

8 ستمبر کی ہڑتال کو بلوچستان کی حالیہ تاریخ کی کامیاب ترین ہڑتالوں میں شمار کیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

نیا اتحاد صوبے کی سیاست کو نئی سمت دے سکتا ہے؟
خیال رہے کہ بلوچستان کی سیاسی تقسیم نظریاتی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر گہری ہے۔ بلوچ قوم پرست جماعتیں بی این پی اور نیشنل پارٹی براہوی اور بلوچ اکثریتی وسطی اور جنوبی بلوچستان کے علاقوں میں اثر رکھتی ہیں جبکہ پشتون قوم پرست جماعتیں کوئٹہ اور شمالی بلوچستان میں زیادہ فعال ہیں۔
اس تنوع اور امتزاج کے ساتھ مجوزہ اتحاد صوبے کی سیاست کو نئی سمت دے سکتا ہے۔
 حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی یہ مجوزہ اتحاد چیلنج ہو سکتا ہے۔ اتحاد کی صورت میں احتجاجی سیاست زور پکڑ سکتی ہے۔ صوبائی حکومت نے 8 ستمبر کی ہڑتال پر بھی سخت ردعمل دیا تھا
بلوچستان کے سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ حالیہ احتجاج نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر صوبے کی جماعتیں متحد ہوں تو خاطر خواہ فوائد حاصل کر سکتی ہیں۔
ان کے مطابق ’2002 میں متحدہ مجلس عمل کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھرپور نتائج دیے۔ ماضی میں پونم بھی ایک مؤثر اور  بڑا اتحاد تھا لیکن یہ انتخابی اتحاد نہیں بن سکا۔‘
تاہم سینئر صحافی اور سیاسی مبصر شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے درمیان وسیع تر اتحاد بننا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتحاد کی خواہش تو سب کی ہو سکتی ہے لیکن ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ پونم سمیت مختلف اتحادوں میں یہ جماعتیں وقتی طور پر اکٹھی ہوئیں مگر آخرکار شخصی اختلافات اور ذاتی مفادات کے باعث بکھر گئیں۔

 

شیئر: