Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نان آئل اور مصنوعی ذہانت، سعودی معیشت کے مستقبل کا محور

’غیر تیل سرگرمیوں کا حصہ مجموعی قومی پیداوار میں 55 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے‘ ( فوٹو: سبق)
جب سعودی عرب  نے وژن 2030 کا اعلان کیا تھا تو سب سے بڑا چیلنج تیل پر انحصار کم کرنا اور ایک ایسا پائیدار معیشتی ڈھانچہ قائم کرنا تھا جو نمو اور تنوع کی صلاحیت رکھتا ہو اور زیادہ تر غیر تیل پر مبنی سرگرمیوں پر قائم ہو۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق وسیع اصلاحات کے کئی سال بعد اب نتائج اعداد و شمار اور حقائق کی صورت میں واضح طور پر نظر آ رہے ہیں جیسا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مجلس شوریٰ کے نویں دور کی دوسری سالانہ نشست کے افتتاحی خطاب میں نمایاں کیا ہے۔
نان آئل سرگرمیوں میں پیشرفت
اعداد و شمار جھوٹ نہیں بولتے، غیر تیل سرگرمیوں کا حصہ مجموعی قومی پیداوار میں 55 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔
 یہ ایک متوازن معیشت کی طرف حقیقی پیشرفت ہے جو وژن 2030 کے تحت پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی اور مختلف امید افزا شعبوں میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے۔

یہ ترقی نہ صرف معاشی و مالیاتی اشاریوں میں نظر آ رہی ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور شہریوں و مقیم غیر ملکیوں  کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہوئی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس معاشی تبدیلی نے سعودی عرب کی معیشت پر عالمی سطح پر اعتماد کو بڑھایا ہے۔
 اس کا مظہر یہ ہے کہ 660 بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنے علاقائی دفاتر کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا اور توقع ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔

اس طرح سعودی عرب سرمایہ کاری کے عالمی نقشے میں ایک مرکزی کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے اور اپنی حیثیت ایک عالمی اقتصادی مرکز کے طور پر ثابت کر رہا ہے جو سعودی معیشت کی طاقت، استحکام اور اس کے وسیع تر مستقبل کی عکاسی کرتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کا عالمی مرکز
سعودی معیشت کی یہ ترقی اور نمو جدید ٹیکنالوجی اور عالمی سرمایہ کاری کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ اقدامات کے ساتھ ساتھ جاری رہی۔
ریاض نے تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے خود کو مصنوعی ذہانت کا عالمی مرکز بنانے کا ہدف طے کیا۔

اسی مقصد کے لیے سعودی ڈیٹا اینڈ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اتھارٹی (سدايا) نے 2020 میں خادم حرمین شریفین کی منظوری سے قومی ڈیٹا و مصنوعی ذہانت کی حکمتِ عملی کا آغاز کیا تاکہ سعودی عرب کو اس میدان میں عالمی سطح پر صفِ اوّل کے 15 ممالک میں شامل کیا جا سکے۔
 اس حکمتِ عملی کے تحت 2030 تک 20 ہزار ماہرین اور سپیشلسٹ تیار کرنا اور 20 ارب ڈالر تک کی ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو اس شعبے میں متوجہ کرنا بھی شامل ہے۔

اس امید افزا شعبے میں ایک بڑی پیشرفت مئی 2025 میں سرکاری سرمایہ کاری فنڈ کے تحت ’ہیومین‘ کمپنی کا قیام تھا جسے عالمی ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے ’انویدیا‘ اور ’اے ایم ڈی‘ کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے ہزاروں جدید چِپس فراہم کی گئیں۔
 یہ اقدام سعودی عرب کی اُس واضح خواہش کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مستقبل کی صنعت کا فعال شریک ہو، ملک کی مسابقتی صلاحیت کو بڑھائے اور ایک نئے علمی معیشت کی بنیاد رکھے جو سعودی عرب کو صرف ٹیکنالوجی کا صارف ہی نہیں بلکہ برآمد کنندہ بھی بنائے۔
وسائل کے انتظام میں جامع وژن
یہ معاشی کامیابیاں وسائل کے جامع اور بہتر انتظام سے جدا نہیں۔
 سعودی حکومت عوامی اخراجات کے اقتصادی اور سماجی اثرات کو جانچنے پر خاص توجہ دیتی ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پالیسی کا محور کارکردگی اور وسائل کو قومی ترجیحات کی طرف بروقت اور مؤثر انداز میں استعمال کرنا ہے۔
 

شیئر: