Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب بدرالدین قاضی جانی واکر بن گئے،’سر جو تیرا چکرائے، یا دل ڈوبا جائے۔۔۔‘

کیا آپ بالی وڈ کے ایسے اداکار کے بارے میں بتا سکتے ہیں جنہوں نے تقریباً 300 فلموں میں اداکاری کی اور وہ پہلے اداکار تھے جنہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اتوار کے دن کام نہیں کریں گے۔
آپ ان کے بارے میں نہ جانتے ہوں لیکن آپ ان کی اداکاری کے مرید ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کی اداکاری کے مریدوں میں بلراج ساہنی، دلیپ کمار، دیوآنند، راج کپور اور گرودت جیسے معروف فنکار شامل رہے ہیں۔
ان کا نام بدرالدین جمال الدین قاضی ہے اور بعض حوالہ جات کے مطابق وہ آج سے تقریباً 100 سال قبل آج ہی کے دن یعنی 11 نومبر کو انڈیا کے شہر اندور میں پیدا ہوئے تاکہ ایک زمانے کو ہنسا سکیں۔
اب آپ ذرا ذرا سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم اپنے زمانے کے یا یوں کہیں کہ آج تک کے بالی وڈ کے سب سے بڑے کامیڈین جانی واکر کی بات کر رہے ہیں۔
لیکن ان کی زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں تھی بلکہ انتہائی سخت تھی۔ اندور میں جب فاقہ کشی کی نوبت آئی تو بمبئی (اب ممبئی) کا رُخ کیا۔ وہی بمبئی جس کے بارے میں انہوں نے 1956 میں آنے والی فلم ’سی آئی ڈی‘ میں معروف گیت گایا:
’ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے بامبے میری جان‘
اگر آپ فلیش بیک میں جائیں تو آپ کو بمبئی کے ایک پرانے بس اڈّے پر ایک کنڈکٹر نظر آتا ہے جو  صرف ٹکٹیں نہیں کاٹتا تھا بلکہ مسافروں کو اپنی بس میں سوار کرنے کے لیے ان کے دل بھی جیت لیتا تھا۔
جتنے بس سٹاپ یا جتنے موڑ آتے، اتنے ان کے منھ سے لطیفے یا برجستہ اور چست جملے نکلتے۔ کبھی کبھی لوگ ان کی باتوں میں اس قدر کھو جاتے تھے کہ وہ ان کی باتیں سننے کے لیے اپنی منزل بھی بھول جاتے اور بدرالدین قاضی کی باتیں سنتے رہتے۔
لیکن ان کی ان اداؤں کے پیچھے فلموں سے ان کی دلی وابستگی تھی۔ جوانی کے دنوں میں  ان کے آئيڈیل کامیڈین نور محمد چارلی ہوا کرتے تھے، وہ ان کے جیسا بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے اور ان کے اسٹنٹ کی مشق کیا کرتے تھے۔
چنانچہ ان کا خواب اس دن پورا ہوا جب انہیں کسی دن اداکار بلراج ساہنی نے ان کے رنگ میں دیکھ لیا۔ گرودت اپنی فلم ’بازی‘ کے لیے کسی کامیڈین کی تلاش میں تھے۔  چنانچہ جب انہوں نے اس کا ذکر بلراج ساہنی سے کیا تو انہوں نے اس بس کنڈکٹر کا ذکر کیا جسے انہوں کبھی دیکھا تھا۔
بہرحال گرودت نے کسی کے ذریعے انہیں بلا بھیجا اور جب بدرالدین آڈیشن کے لیے پہنچے تو انہوں نے نشے میں دھت آدمی کا کردار اس مہارت سے نبھایا کہ گرو دت حیران رہ گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر تم بن پیے اس مہارت کے ساتھ شرابی کا کردار نبھا سکتے تو تم کسی بھی کردار میں جان ڈال سکتے ہو!‘
اور پھر بدرالدین قاضی جانی واکر بن گئے
فلموں کے لیے بدرالدین قاضی جیسا نام کچھ مناسب معلوم نہیں ہو رہا تھا، چنانچہ نام بدلنے کے قواعد شروع ہوئے اور ان کو اسی حساب سے گرودت نے جانی واکر نام دیا۔ 
مزاح میں وقار

جانی واکر وہ پہلے اداکار تھے جنہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اتوار کے دن کام نہیں کریں گے (فائل فوٹو: اپرسٹال)

جانی واکر کا کمال یہ تھا کہ ان کا مزاح کبھی ہلکا یا بھونڈا نہیں ہوتا تھا۔ وہ باتوں سے بات پیدا کرتے اور ان کے لیے مکالمے ان کے حساب سے لکھے جاتے۔
ان کے فن کی کمال بات یہ تھی کہ وہ لوگوں کو کسی پر ہنسنے کے بجائے سب کے ساتھ ہنسنے کی دعوت دیتے تھے، چنانچہ جانی واکر فلم ساز گرودت کے پسندیدہ اداکار رہے۔
سنہ 1957 میں ان کی تاریخی فلم ’پیاسا‘ آئی جس میں جانی واکر نے ایک خوش مزاج مالش کرنے والے کا کردار ادا کیا۔ پلے بیک سنگر محمد رفیع کی آواز میں ان پر جو گیت فلمایا گیا وہ آج بھی لوگوں کی پسند میں شامل ہے اور تھکے ہوئے دل کو گرماہٹ اور تازگی بخشتا ہے اور یہ گیت کوئی اور نہیں بلکہ ’سر جو تیرا چکرائے، یا دل ڈوبا جائے۔۔۔‘
معروف فلم ساز بمل رائے کی فلم مدھومتی میں ان کا کردار اتنا پسند کیا گیا کہ انہیں بتہرین کامیڈین کے بجائے بہترین معاون اداکار کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
سنہ 1958 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مدھوماتی‘ میں ان کے ساتھ اداکار دلیپ کمار اور اداکارہ ویجنتی مالا تھے اور یہ فلم کئی جنموں پر مبنی تھی جس میں روحوں کو بھی پیش کیا گیا۔
شوٹنگ کے دوران جب پہاڑوں کی ٹھنڈ میں سب کانپ رہے تھے تو جانی واکر بولے ’بھوتوں کو رات کی شفٹ کا الگ معاوضہ ملنا چاہیے، آخر وہ بھی تو ٹھنڈ میں کانپتے ہیں!‘
یہ سن کر سنجیدہ مزاج ڈائریکٹر بمل رائے بھی ہنس پڑے۔
کہتے ہیں کہ وہ اتنے ہردلعزیز تھے کہ دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کپور جیسے بڑے فنکار اکثر ان کے سین دیکھنے کے لیے سیٹ پر رُکے رہتے۔
دلیپ کمار کا جانی واکر کے بارے میں کہنا تھا کہ ’جانی کا مزاح دل سے آتا ہے۔ وہ کبھی کسی کی عزت مجروح نہیں کرتے، مگر سب کو خوش کر دیتے ہیں۔‘
کہتے ہیں کہ سیٹ سے باہر بھی جانی واکر اتنے ہی شفیق اور نرم مزاج تھے۔ نئے اداکاروں کو ہمت دیتے، سفارش کرتے، اور جنہیں موقع نہیں ملتا تھا، ان کے لیے دروازے کھلواتے۔
انہوں نے بعد میں آنے والے پوری نسل کو متاثر کیا۔ ان کے گرویدہ کامیڈین میں محمود، جانی لیور اور اداکار گووندہ آتے ہیں۔ کامیڈین راج پال یادو نے ان کے بارے میں کہا کہ ’جانی واکر اتنے عظیم اداکار تھے کہ سو سال تاریخ میں ان جیسا کوئی نظر نہیں آتا۔‘
دی ہندو اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق انہیں سیٹ پر پابندی سے آنے، فلموں میں ایمانداری اور کمٹمنٹ کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہیں دھرمیندر کی فلم ’شکار‘ کے لیے بہترین کامیڈین کا ایوارڈ ملا۔ لیکن اصل ایوارڈ انہیں ناظرین کی جانب سے ملا۔
کہتے ہیں کہ ان کے لیے فلموں میں الگ سے گیت لکھے جاتے تھے۔ چنانچہ دلیپ کمار کی فلم ’پیغام' میں ان پر فلمایا گیا مشہور گیت ہے ’ہم کیا دیوالی منائیں او لالہ، اپنا تو بارھو مہینہ دیوالا۔‘
فلم ’میرے محبوب‘ میں انہوں نے علی گڑھ کے طالبعلم اور شاعر بندہ دین گھایل کا کردار ادا کیا ہے۔ اس میں بھی ان پر گیت فلمایا گیا۔ کہتے ہیں کہ فلم پروڈیسرز اور پروموٹرز فلموں میں ان کے لیے گیت رکھنے کی الگ سے فرمائش کرتے تھے اور اس کے لیے اضافی رقم دینے کو بھی تیار رہتے تھے۔
پروقار انداز میں فلم سے رخصتی

آج بھی جب کہیں سے ’سر جو تیرا چکرائے‘ گیت کی دھن سنائی دیتی ہے تو بہت سے لوگوں کو جانی واکر کی یاد آتی ہے: فوٹو برٹانیکا

لیکن جب 1980 کی دہائی میں فلموں میں بھونڈا پن اور چیخ پکار والا مزاح چھا گیا، تو جانی واکر نے خاموشی سے پردہ سیمیں کو الوداع کہا۔
آؤٹ لک میگزن کی رپورٹ کے مطابق جانی واکر نے فلموں سے اپنی رخصتی کے بارے میں کہا:’پہلے ہم صاف ستھری کامیڈی کرتے تھے، ہمیں معلوم تھا کہ سنیما میں آنے والا شخص اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ آیا ہے۔۔۔ کہانی سب سے اہم تھی، کہانی کا انتخاب کرنے کے بعد ہی ابرار علوی اور گرو دت موزوں اداکاروں کی تلاش کرتے تھے۔ اب یہ سب الٹا ہے۔۔۔ اب ایک بڑے ہیرو کی لائن لگاتے ہیں اور اس میں فٹ ہونے کے لیے کہانی ڈھونڈتے ہیں۔ کامیڈین کو کہیں کہیں فٹ کیا جاتا ہے۔ میں اس لیے فلموں سے باہر ہو گيا کیونکہ کامیڈی فحاشی کا یرغمال بن گئی میں نے 300 فلموں میں کام کیا اور سینسر بورڈ نے کبھی ایک لائن بھی نہیں کاٹی۔‘
ان کا کہنا تھا:’میں نے ہمیشہ لوگوں کو ہنسایا، مگر کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔ یہی اصل کامیڈی ہے۔‘
سنہ 1980 کی دہائی میں انہیں فلم ’شان‘ میں دیکھا جا سکتا ہے جب وہ امیتابھ بچن اور ششی کپور کے ساتھ لوگوں کو دھوکہ دینے کی ایک ٹیم بناتے ہیں۔
کمل ہاسن کی 1997 میں آنے والی فلم ’چاچی 420‘ ان کی آخری فلم ٹھہری جس میں انہوں ایک کردار ادا کیا ہے۔
جب 2003 میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو پورے ملک نے محسوس کیا کہ جیسے ہنسی کا ایک دور ختم ہو گیا ہو۔
لیکن آج بھی جب کہیں سے ’سر جو تیرا چکرائے‘ گیت کی دھن سنائی دیتی ہے تو بہت سے لوگوں کو جانی واکر کی یاد آتی ہے جنہوں نے دکھ میں بھی خوشی کا رنگ بھر دیا تھا۔
انہوں نے خود تو چھٹی کلاس میں تعلیم چھوڑ دی لیکن اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی اور انہیں پڑھنے کے لیے امریکہ بھیجا۔
 

شیئر: