جہیز دریا بُرد، مگر محبت اور حوصلہ باقی، سیلاب کی خیمہ بستی میں انوکھی شادی
جمعرات 2 اکتوبر 2025 16:56
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے چوہنگ کے مقام پر سیلاب متاثرین کے لیے متعدد خیمہ بستیاں قائم کی گئی ہیں جہاں دریائے راوی کے سیلاب سے بے گھر ہونے والے خاندان عارضی طور پر رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔
یہ وہ متاثرین ہیں جن کے گھر حالیہ سیلاب میں ڈُوب گئے ہیں، سامان سیلابی ریلوں کی نذر ہو گیا ہے لیکن اس دوران بدھ کو یہاں ایک غیرمعمولی خوشی کا سماں دیکھا گیا جب خیمہ بستیوں میں مقیم دو خاندانوں نے اپنے بچوں کی شادی کا فیصلہ آدھے گھنٹے میں طے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری خیمہ بستی ایک شادی ہال میں تبدیل ہو گئی۔
الخدمت فاؤنڈیشن کے زیراہتمام یہ خیمہ بستی یکم ستمبر کو قائم کی گئی تھی جہاں 21 سال کی طیبہ اور 26 سال کے علی رضا نے اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔
طیبہ کے والد محمد ریاض کا گھر تھیم پارک میں تھا جو سیلاب میں ڈُوب گیا۔ محمد ریاض کے تین بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹیوں کے جہیز کے لیے جو کچھ جمع کیا تھا وہ سب سیلاب کی نذر ہو گیا۔
انہوں نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میری 6 بیٹیاں ہیں اور میں ان کے لیے جہیز اور دیگر سامان جمع کرتا رہتا تھا۔ جب سیلاب آیا تو ہم سب اپنی جانیں بچا کر نکلے اور یہاں عارضی رہائش اختیار کی۔‘
محمد ریاض نے بتایا کہ ’پانی کم ہوا تو میں وہاں اپنے گھر گیا تو دیکھا نقشہ موجود ہے اور چاردیواری میں ایک پیٹی تھی باقی سب کچھ دریا بُرد ہو گیا تھا۔‘
اُن کی ایک بیٹی کی شادی ہو چکی ہے جبکہ 5 بیٹیاں غیرشادی شدہ ہیں جن میں سے طیبہ ایک فیکٹری میں کام کیا کرتی تھیں جبکہ بیٹا پرائیویٹ ملازمت کرتا تھا۔
دوسری طرف علی رضا ایک نجی کمپنی میں میڈیکل بلنگ کے کام سے وابستہ تھے۔ سیلاب آنے کے بعد طیبہ فیکٹری کو وقت نہ دے سکیں جس کے باعث اُنہیں ملازمت سے نکال دیا گیا، تاہم انہوں نے خیمہ بستی میں قائم سکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔
سینیئر مینیجر میڈیا ریلیشنز الخدمت فاؤنڈیشن شعیب ہاشمی بتاتے ہیں کہ ’وہ دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر یہاں فلاحی خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔ وہ بچوں کے دودھ اور ڈائپرز جیسی ضروریات کا خیال رکھتی تھیں اور ہر جگہ پہنچتی تھیں۔‘
علی رضا کی والدہ کوثر بی بی بتاتی ہیں کہ ’انہوں نے خیمہ بستی میں طیبہ کو کام کرتے دیکھا اور پھر اُن کے خاندان سے خیمہ بستی میں ملنے پہنچیں۔ یہ دونوں خاندان ایک دوسرے کو پہلے سے نہیں جانتے تھے اور اُن کے خیمے بھی ایک دوسرے سے دُور تھے۔‘
’آج سے پانچ روز قبل کوثر بی بی، محمد ریاض کے خیمے میں پہنچیں اور اُن سے کہا کہ آپ کی چھ بیٹیاں ہیں، میں آپ کی ایک بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگنے آئی ہوں۔‘
محمد ریاض چند منٹوں کی اس گفتگو کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’یہاں سب کو معلوم ہے کہ میری چھ بیٹیاں ہیں۔ قریب ہی ایک خیمے میں قیام پذیر خاتون نے رشتہ مانگا اور کہا کہ ’آپ ہمیں رشتہ دے دیں تو یہ چند دنوں کی رفاقت رشتے میں بدل جائے گی۔ میں نے ہاں کر دی یعنی نصف گھنٹے میں ہی رشتہ پکا ہوگیا۔‘
اِن دو خاندانوں نے اس حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دی اور پھر خود مٹھائی لے کر خیمہ بستی کے ذمہ داروں کے پاس آ گئے اور یہ خبر دی کہ انہوں نے اپنے بچوں کی منگنی کر دی ہے اور اب وہ اُن کی شادی کرنا چاہتے ہیں۔
خیمہ بستی کی انتظامیہ نے اسے باقاعدہ شادی کی تقریب میں تبدیل کر دیا اور یوں یہ دونوں خاندان ایک ہوگئے۔
علی رضا کی والدہ اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنے بیٹے کی شادی طے کی اور اسے بتایا تو وہ بھی مان گیا۔ ہمارے پاس سیلاب کی وجہ سے کچھ نہیں بچا تھا۔ بیٹے کی شادی ہو رہی ہے، اس کی خوشی ہے لیکن ہم سیلاب سے متاثرہ ہیں، سب کچھ ڈُوب گیا ہے۔ بیٹے کی خوشی بار بار نہیں آتی۔ اس لیے خوشی منا رہے ہیں۔‘
الخدمت فاؤنڈیشن نے اس شادی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ شعیب ہاشمی بتاتے ہیں کہ ’متاثرین اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے تھے۔ ہم نے کوشش کی کہ ان کو ضروری سامان فراہم کر سکیں۔‘
’ان خاندانوں نے ہمیں آگاہ کیا کہ اُن کے بچوں کی شادیاں ہونا تھیں، خوشیاں تھیں۔ دو فیملیز ایسی تھیں جنہوں نے پہلے سے بات چیت کی ہوئی تھی۔‘
شعیب ہاشمی کے مطابق ’وہ ہمارے پاس آئے اور بتایا کہ وہ سب راضی ہیں اور لڑکا لڑکی بھی رضامند ہیں تو ’جب میاں بیوی راضی، تو کیا کرے گا قاضی‘ کے مصداق ہم نے بھی اُن کی شادی کروانے کا منصوبہ بنایا۔‘
الخدمت وومن ونگ ٹرسٹ کے آسان شادی پروجیکٹ کے تحت اس جوڑے کو تحائف دیے گئے جن میں بیڈ شیٹس، کراکری، ڈنر سیٹ، سٹیل کے برتن، پنکھا، سلائی مشین اور کولر اور دیگر اشیا شامل تھیں۔
شعیب ہاشمی بتاتے ہیں کہ ’ہم نے اس خیمہ بستی میں ہی شادی کا سا سماں بنا دیا۔ جیسے چُپکے سے ویرانے میں بہار آجائے اسی طرح اس غم زدہ خیمہ بستی میں آج خوشی کا موقع ہے۔‘
شادی کی تقریب خیمہ بستی میں ہی منعقد ہوئی جہاں ولیمہ بھی رکھا گیا۔ دُلہے کی والدہ اور دُلہن کے والد بہت خوش دکھائی دیے۔
لڑکی کے والد محمد ریاض برین ہیمریج کے مریض ہیں جبکہ اُن کی اہلیہ فالج کی مریضہ ہیں۔
محمد ریاض بتاتے ہیں کہ ’گھر میں شادی کرتا تو وہ الگ سماں ہوتا لیکن یہاں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے۔‘
’ہم نے جب انہیں بتایا تو انہوں نے سارے انتظامات کردیے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ جو کپڑے تھے انہی میں مہندی کی رسم ادا کی ہے۔‘
دوسری طرف دُلہا بھی یہ شکوہ کرتا دکھائی دیا کہ ’گھر میں شادی ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ گھر جا کر بھی یہ خوشی منائیں گے۔ میری والدہ کی خواہش تھی کہ اُن کی پسند کی لڑکی سے شادی ہو لہٰذا میں نے رضامندی ظاہر کردی۔‘