سعودی عرب کے الباحہ ریجن کا منفرد طرزِ تعمیر جسے اس برس کے اوائل میں قومی ’سعودی آرکیٹیکچر کیریکٹرز میپ‘ میں شامل کیا گیا تھا‘ سیاحوں کے لیے بہترین مقام بنتا جا رہا ہے۔
عبداللہ بن عبدالقادر ھریدی جو الباحہ یونیورسٹی میں فنِ تعمیر اور عمارتوں سے متعلق ٹیکنالوجی کے ایسوسی ایٹ پرفیسر ہیں، کہتے ہیں’ اس ریجن کے سٹائل پر پہاڑوں کا بھی اثر ہے جو یہاں کی رعنائی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
مملکت میں پرانی طرز تعمیر دوبارہ مقبول ہونے لگیNode ID: 873126
’ ریجن میں تین طرح کے طرزِ تعمیر پائے جاتے ہیں۔ایک روایتی، دوسرا جس میں تبدیلی کا عُنصر نمایاں ہے اور تیسرا موجودہ دور کے تقاضوں جیسا۔‘
عرب نیوز کے مطابق الباحہ کے فنِ تعمیر کی نمایاں خصوصیات میں قلعے، بیرونی سیڑھیاں، نمونوں والے دروازے اور کھڑکیاں اور زافر ستونوں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
یہاں روایتی عمارتوں کی تعمیر میں ماحولیاتی حالات کو ذہن میں رکھا جاتا ہے جن میں علاقہ اور آب و ہوا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ علاقائی رسم و رواج بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کے تحت ہی لوگوں کو اکٹھا بٹھایا جاتا ہے۔

عبداللہ بن عبدالقادر ھریدی نے بتایا کہ’ روایتی انداز میں ریئل اسٹیٹ کے منصوبوں کو تعمیر کرنا آسان ہوتا ہے جن سے مقامی شناخت کا پوری طرح علم ہو جاتا ہے۔ یہ منصوبے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اس معیار کو اختیار کریں۔‘
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مارچ میں ’سعودی آرکیٹیکچر کیریکٹرز میپ‘ متعارف کرایا تھا جس کے تحت مملکت کے مختلف ریجنوں کے لیے 19 منفرد طرزِ تعمیر متعین کیے گئے تھے۔
اس کا مقصد مملکت کے طرزِ تعمیر کے امتیازی کردار اور روایت کو زندہ رکھتے ہوئے سعودی عرب کے شہری منظر نامے کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔

ھریدی کے مطابق الباحہ کا طرزِ تعمیر، توانائی دوست ہے جس میں قدرتی تعمیراتی میٹیریل کو استعمال کیا جاتا ہے جو مقامی طور پر دستیاب ہوتا ہے۔
محمد بن سالم الغامدی کی عمر 73 برس ہے اور وہ کئی دہائیوں سے ریجن میں پتھروں سے عمارتیں بنانے کا کام کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے سعودی پریس ایجنسی کو بتایا’ السروات اور تھامہ کے ایریا میں آب و ہوا اور علاقے کی بناوٹ کے فرق اور تعمیری میٹریل کی دستیابی کی وجہ سے طرزِ تعمیر مختلف ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’الباحہ کے قدیم تعمیر کے انداز کی خاص بات اس کا فطرت پر انحصار ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ مکانات، مقامی پتھروں سے بنائے جاتے تھے جن میں گرینٹ اور سنگِ سیاہ استعمال ہوتا تھا اور انھیں مرمر کے پتھروں سے سجایا جاتا تھا۔‘
’چھتوں پر نوکیلے پتوں والی سدا بہار جھاڑی کی لکڑیاں ڈال کر مٹی سے چھپا دیا جاتا تھا اور یہ سب کچھ گرد و نواح کے ماحول کے عین مطابق ہوا کرتا تھا۔‘

حالیہ برسوں میں ابہا کے قدیم اندازِ تعمیر میں لوگوں کی دلچسپی پھر سے بڑھ گئی ہے۔ انھوں نے ایک انیشیٹِیو کے تحت اپنے ورثے کو دوبارہ زندہ کرنے کی ٹھانی ہے۔
کئی افراد نے پرانے انداز سے متاثر ہو کر نئے گھروں کی تعمیر کی ہے جن میں وہاں کی تاریخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پتھروں، نمونوں اور سجاوٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔