Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا علی امین گنڈاپور کی تبدیلی کے لیے بشریٰ بی بی اور علیمہ خان ایک پیج پر تھیں؟

فروری 2024 کے الیکشن میں کامیابی کے بعد علی امین کو خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے پی پی
اڈیالہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے یہ ہدایات دی گئیں اور خیبر پختونخوا کی سیاسی تاریخ کا ایک باب ختم ہو گیا۔ علی امین گنڈاپور جو تحریک انصاف کی جانب سے فروری 2024 کے الیکشن میں وزیراعلٰی لگائے گئے تھے، نے 8 اکتوبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ استعفیٰ پارٹی کے بانی عمران خان کے براہ راست احکامات پر دیا گیا جو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
بعض سیاسی مبصرین کے مطابق اس برطرفی کی داستان میں دلچسپ موڑ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے درمیان اس تبدیلی پر کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا۔  
یہ صورت حال اتفاقا پیدا ہوئی یا نہیں البتہ گزشتہ نومبر سے لے کر چھوٹی موٹی لڑائیوں اور الزام تراشیوں کو دیکھا جائے تو صورت حال قابل فہم نظر آتی ہے۔ گزشتہ برس نومبر 2024 میں اسلام آباد دھرنے کے دوران بشریٰ بی بی کی ناراضی سے لے کر حال ہی میں علیمہ خان کے خلاف گنڈاپور کے متنازع بیانات تک، یہ سب کچھ ایک ’پرفیکٹ سٹورم‘ کی طرح جمع ہوتا دکھائی دیتا ہے جو گنڈاپور کی سیاست کا خاتمہ بن گیا۔ تحریک انصاف کے اندر یہ بحث گرم ہے کہ کیا یہ برطرفی پارٹی کی اندرونی طاقت کی لڑائی کا نتیجہ ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت؟

نومبر 2024 کا دھرنا: بشریٰ بی بی کی ناراضی کا آغاز

اس معاملے کو ماضی قریب میں جا کر دیکھیں تو 26 نومبر 2024 کو  جب پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں عمران خان کی رہائی کے لیے ایک بڑا مارچ کیا تو علی امین گنڈاپور اس کی قیادت کر رہے تھے۔ پشاور سے لے کر اسلام آباد تک ہزاروں کارکنوں نے اس میں شرکت کی لیکن جیسے ہی مارچ اسلام آباد پہنچا، معاملات بگڑ گئے۔
بشریٰ بی بی جو اس احتجاج میں خود بھی شریک تھیں، گنڈاپور سے شدید نالاں نظر آئیں۔ ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بشریٰ بی بی احتجاجی قافلے سے الگ ہو کر چل رہی ہیں، ان کے چہرے پر غصہ صاف جھلک رہا ہے۔ ایک ویڈیو میں وہ کہتی سنی گئیں ’یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ علی امین نے وعدہ کیا تھا کہ سب کچھ منظم ہوگا، لیکن یہ تو افراتفری ہے۔‘ پی ٹی آئی کے اندر یہ افواہ تھی کہ بشریٰ بی بی کو لگا کہ گنڈاپور نے احتجاج کی منصوبہ بندی میں ان کی رائے کو نظر انداز کیا، اور پولیس کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ احتجاج ’فلاپ‘ ہو گیا، اور کارکن مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے۔ خود گنڈا پور اور بشری بی بی بھی عجلت میں واپس چلے گئے۔

علی امین کے پہلے بشریٰ بی بی اور پھر علیمہ خان سے اختلافات سامنے آئے۔ فائل فوٹو

بشریٰ بی بی جو ان دنوں جیل سے رہائی کے بعد خیبر پختونخوا میں ہی قیام کر رہی تھیں۔ سیاسی پنڈتوں کے نزدیک یہ واقعہ بشریٰ بی بی اور گنڈاپور کے درمیان پہلی دراڑ تھا۔ اس کے بعد بشری بی بی دوبارہ گرفتار ہوئیں اور ابھی تک جیل میں ہیں۔

حالیہ  تنازعہ: علی امین کا علیمہ خان پر الزام

گزشتہ کچھ مہینوں سے علیمہ خان ڈھکے چھپے لفظوں میں علی امین گنڈاپور تنقید کر رہی تھیں اور اڈیالہ جیل پہنچ کر دھرنا نہ دینے کا الزام بھی انہوں نے عائد کیا۔ جس کا جواب علی امین گنڈا پور اسی انداز میں دے رہے تھے کہ پھر اچانک صورت حال سنگین ہوئی جب یکم اکتوبر کو علی امین گنڈا پور نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے علیمہ خان پر کئی طرح کے الزام عائد کیے۔ عمران خان نے گنڈاپور کو اڈیالہ جیل میں طلب کیا تھا۔ گنڈاپور نے مزید کہا کہ علیمہ خان پارٹی میں تقسیم پیدا کر رہی ہیں اور ’اسٹیبلشمنٹ کی سہولت‘ حاصل کر رہی ہیں۔ علیمہ خان نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان ان کے الزامات سے حیران پریشان ہوئے اپنے ویڈیو بیان میں علی امین نے علیمہ خان کو ملٹری انٹیلیجنس کا ایجنٹ تک قرار دے دیا تھا۔‘

سوشل میڈیا پر تبصروں کی بھرمار

گنڈاپور کی برطرفی پر سوشل میڈیا پر تبصروں کی بھرمار ہے۔ کچھ اسے پی ٹی آئی کے اندر طاقت کی لڑائی قرار دے رہے ہیں تو کچھ اسٹیبلشمنٹ کی سازش۔ صحافی طارق متین نے ایکس پر لکھا: ’علی امین گنڈاپور کی برطرفی اسٹیبلشمنٹ سے مراسم کا نتیجہ ہے۔ ہدایات کے تحت بار بار احتجاج ناکام کرنے کا نتیجہ۔ 90 دن کا اعلان کرنے کا نتیجہ۔ آخری جلسے کو خراب کرنے کا نتیجہ۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’علی امین کے حق میں اچھا ہی ہوا، کیونکہ 12 اکتوبر کو نوے دن کی ڈیڈ لائن مکمل ہو رہی تھی، اس کے بعد مصیبت بہت بڑھ جائے گی۔‘

علی امین کے بعد اب سہیل آفریدی کو پی ٹی آئی نے وزیراعلٰی نامزد کیا ہے۔ فائل فوٹو: پی ٹی آئی ایکس

انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن (آئی ایس ایف) نے ایک پریس ریلیز میں کہا: ’علی امین صاحب، یاد رکھیں کہ عمران خان نے آپ کو عزت بخشی اور وزیراعلیٰ کے منصب تک پہنچایا، مگر آپ نے اپنے عہدے کے تقاضوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا... آپ نے بارہا خان صاحب کی ہدایات کو پس پشت ڈالا اور تنقید کا رخ خان صاحب کے خاندان کی طرف موڑا۔‘
سینئیر صحافی اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں علی امین گنڈا پور کو دونوں خواتین نے ہٹایا بلکہ یہ مکمل طور پر علیمہ خان کی سبقت ہوئی ہے۔ اور اس دفعہ بشری بی بی نے اس میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہیں کھڑی کی، ان کی طرف سے کسی بھی طرح کا بیان باہر نہ آنا بھی اس بات کا غماز ہے کہ انہوں نے اس معاملے کی خاموش حمایت ضرور کی ہے۔ جب وہ جیل سے باہر تھیں تو صورت حال مختلف تھی اب وہ جیل کے اندر ہیں جہاں اب وہ شاید اس طرح سے اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اصل بات یہ ہے کہ وزیراعلی کی اس طرح سے تبدیلی عمران خان کی سگنیچر سیاسی چال ہے۔ اسمبلیوں سے استعفوں سے لے کر وزیراعلی تبدیل یا لگانے تک، ان کی سیاست میں سخت گیری کی جھلک نمایاں رہی ہے۔ وہ یہ تبدیلی خود بھی چاہتے تھے کیونکہ وہ وفاقی حکومت کے خلاف سڑکوں پر دباو بڑھانا چاہتے ہیں۔‘

 

شیئر: