Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کو نقصان دہ مواد سے کیسے بچائیں؟ کئی یورپی ممالک کا سوشل میڈیا پر عمر کی حد مقرر کرنے کا فیصلہ

یورپی یونین میں سوشل میڈٰیا کے استعمال کی عمر کی حد قائم کرنے پر غور ہو رہا ہے (فائل فوٹو: پکسابے)

یورپی یونین نے جمعے کو بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں خصوصاً سنیپ چیٹ، یوٹیوب، ایپل اور گوگل سے یہ وضاحت طلب کی ہے کہ وہ بچوں کو آن لائن نقصان دہ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی مواد سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یورپی حکام نے خبردار کیا ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بچوں کو خطرناک مواد، جعلی اشتہارات اور لت میں مبتلا کرنے والے فیچرز سے بچانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
یورپی یونین کے سخت ڈیجیٹل ضوابط کے باوجود حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین بچوں کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔ اسی لیے برسلز اس وقت اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ پورے یورپی بلاک میں بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر عمر کی حد مقرر کی جائے۔
یہ تجویز آسٹریلیا میں نافذ اس پالیسی سے متاثر ہوکر سامنے آئی ہے جس کے تحت 16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
جمعے کو یورپی یونین کے 27 میں سے 25 ممالک نے اس اقدام کا کم سے کم جائزہ لینے پر اتفاق کیا۔
یورپی یونین کے پاس آن لائن دنیا کو منظم کرنے کے لیے ’ڈیجیٹل سروسز ایکٹ‘ کے نام سے ایک جامع قانون موجود ہے۔ یہ قانون سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی مواد ہٹانے، صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ اور بچوں کی آن لائن حفاظت یقینی بنانے کا پابند بناتا ہے۔
دوسری جانب امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اس قانون کو آزادی اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیا ہے جبکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے جواب میں یورپی یونین کے خلاف تجارتی اقدامات کی دھمکی دی تھی۔
اسی قانون کے تحت یورپی کمیشن نے ’تحقیقی کارروائی‘ کے طور پر سنیپ چیٹ سے یہ تفصیلات مانگی ہیں کہ وہ 13 سال سے کم عمر بچوں کو اپنے پلیٹ فارم کے استعمال سے کیسے روکتا ہے۔
کمیشن نے ایپل اور گوگل سے بھی وضاحت طلب کی ہے کہ وہ اپنے ایپ سٹورز پر ایسے ایپس کی دستیابی کو کیسے روکتے ہیں جن میں جوئے، تشدد یا جنسی نوعیت کا مواد موجود ہو۔
یورپی یونین کی ٹیکنالوجی کمشنر ہینا وِرکُنون نے کہا ہے کہ ’آن لائن دنیا میں بچوں کی حفاظت، پرائیویسی اور سکیورٹی یقینی بنانا ہماری اولین ترجیح ہے۔‘

یورپی یونین نے بچوں کے تحفظ پر سوشل میڈیا کمپنیوں سے وضاحت طلب کی ہے (فائل فوٹو: پکسابے)

’بدقسمتی سے ابھی تک تمام کمپنیاں اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہیں، اسی لیے کمیشن قوانین کے نفاذ کو مزید سخت کر رہا ہے۔‘
برسلز نے سنیپ چیٹ سے یہ بھی پوچھا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر منشیات، ویپ مصنوعات اور دیگر ممنوعہ اشیا کی خرید و فروخت کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے؟
سنیپ چیٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’کمپنی بچوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور کمیشن کو درکار معلومات فراہم کرے گی۔‘
ان کے مطابق ’سنیپ چیٹ پر پہلے ہی ایسے حفاظتی فیچرز متعارف کرائے جا چکے ہیں جو خطرات اور ممکنہ نقصانات کو کم کرتے ہیں۔’
یوٹیوب سے بھی اس کے ’ریکومینڈیشن سسٹم‘ کے بارے میں تفصیلات طلب کی گئی ہیں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ بچوں کو نقصان دہ مواد سے کس طرح محفوظ رکھا جا رہا ہے۔
گوگل کا کہنا ہے کہ اس کے پاس والدین کے لیے مضبوط کنٹرولز اور بچوں کے لیے خصوصی سکیورٹی فیچرز موجود ہیں جنہیں مسلسل بہتر بنایا جا رہا ہے۔
یورپی یونین نے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے خلاف بھی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ پلیٹ فارمز بچوں میں سوشل میڈیا کی لت کم کرنے کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔
یورپی وزرائے مواصلات نے بھی اپنے اجلاس میں بچوں کے لیے عمر کی تصدیق کے نظام، جعلی اکاؤنٹس کی روک تھام اور آن لائن ہراسیت کے سدباب پر تبادلہ خیال کیا۔

یورپی یونین کا کہنا ہے کہ بچوں کو ڈیجیٹل خطرات سے محفوظ رکھنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے (فائل فوٹو: پکسابے)

یورپی کمیشن کی صدر اُرسلا فان ڈیر لائن نے اس معاملے کو ’یورپ کا اخلاقی فریضہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’بچوں کو ڈیجیٹل خطرات سے محفوظ رکھنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔‘
کمیشن نے ماہرین پر مشتمل ایک خصوصی پینل قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جو بچوں کے تحفظ کے لیے عملی تجاویز پیش کرے گا۔
یورپی یونین کے 25 ممالک کے ساتھ ناروے اور آئس لینڈ نے بھی ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے ہیں جس میں ’ڈیجیٹل عمرِ بلوغت‘ کے تعین اور آن لائن دنیا میں بچوں کے تحفظ کے لیے اجتماعی اقدامات کی حمایت کی گئی ہے۔
البتہ بیلجیئم اور ایسٹونیا نے اس اعلامیے پر دستخط نہیں کیے۔ بیلجیم نے موقف اختیار کیا کہ وہ بچوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے مگر اس حوالے سے مختلف طریقوں پر غور جاری رکھنا چاہتا ہے جبکہ ایسٹونیا نے کہا کہ وہ پابندیوں کے بجائے ’ڈیجیٹل تعلیم اور تنقیدی سوچ‘ کو زیادہ مؤثر سمجھتا ہے۔
دریں اثنا ڈنمارک نے اعلان کیا ہے کہ وہ 15 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگانے کی تیاری کر رہا ہے جبکہ فرانس میں بھی اسی نوعیت کے اقدامات پر غور جاری ہے۔

ہاردک پانڈیا 

شیئر: