صوبہ خیبر پختونخوا میں وزارت اعلٰی کی کرسی نئے وزیراعلی سہیل آفریدی نے سنبھال لی ہے مگر گورنر نے اُن کے لیے نئی مشکل کھڑی کی ہے۔
نئے وزیراعلٰی کے انتخاب کے لیے پیر کو اسمبلی کا اجلاس طلب ہوا جس میں سہیل آفریدی 90 ووٹ حاصل کر کے قائد ایوان منتخب ہوئے تاہم اپوزیشن اراکین نے انتخابی عمل کا بایئکاٹ کر کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے اسمبلی فلور پر خطاب میں موقف اپنایا کہ گورنر کی جانب سے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور کا استعفٰی منظور نہیں ہوا اس لیے نئے وزیراعلی کا انتخاب غیرآئینی اقدام ہے۔
مزید پڑھیں
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تین امیدواروں نے وزیراعلی کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے تاہم احتجاجا اجلاس کا بائیکاٹ کیا جس کے بعد سہیل آفریدی کے مقابلے میں کوئی امیدوار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
اپوزیشن کے بغیر وزیراعلٰی کا انتخاب ہو سکتا ہے؟
سپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی نے اس معاملے پر رولنگ دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ وزیراعلٰی کے لیے اپوزیشن کی طرف نامزدگی جمع کرائی گئی تھی اگر انہوں نے بائیکاٹ کرنا تھا تو امیدوار میدان میں نہ لاتے۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے تمام ایوان کے سامنے اپنے استعفے کی تصدیق کی اس کے باوجود گورنر کی جانب سے منظوری میں تاخیر خود غیرآئینی عمل ہے۔
سپیکر بابر سلیم سواتی نے اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود قائد ایوان کے انتخاب کے عمل کو آئینی قرار دے کر ووٹنگ مکمل کرائی۔

حلف برداری کے لیے عدالت سے رجوع
نئے وزیراعلٰی کے انتخاب کے بعد حکومت کے لیے ایک اور امتحان حلف برداری ہے جس کے لیے صوبائی حکومت نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ وزیراعلی کی حلف برداری کے لیے درخواست کی سماعت چیف جسٹس نے کی۔
دوران سماعت عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل استفسار کیا کہ ’گورنر نے وزیراعلٰی کا استعفی منظور کیوں نہیں کیا، آپ وجہ پوچھیں اور ہمیں بتائیں۔‘ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ گورنر صوبے سے باہر ہیں لہٰذا حکومت گورنر کی واپسی کا انتظار کرے۔
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ علی امین گنڈا پور دو بار استعفی دے چکے ہیں جبکہ ایوان کے سامنے بھی تصدیق کر چکے ہیں، نئے وزیراعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں لہٰذا حلف برداری میں تاخیر نہیں کی جا سکتی۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ صوبہ بغیر وزیراعلٰی کے ہے مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے اس معاملے پر رپورٹ طلب کر کے سماعت منگل کی صبح تک ملتوی کی۔

دوسری جانب اپوزیشن اراکین نے نئے وزیراعلٰی کے انتخابی عمل کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے اپوزیشن رکن مولانا لطف الرحمان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آج اسمبلی میں قانون اور آئین کا مذاق اڑایا گیا ہے، ایک وزیراعلی کے ہوتے ہوئے دوسرے وزیراعلی کا انتخاب کیسے ہوسکتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس تعداد پوری ہے تو پھر عجلت کس بات کی ہے۔
مولانا لطف الرحمان کے مطابق علی امین گنڈا پور اب بھی صوبے کے وزیراعلی ہیں لہٰذا حلف برداری بھی غیرآئینی تصور ہوگی۔ انکا مزید کہنا تھا کہ انتخابی عمل کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی ملاقات میں وزیراعلی کے انتخاب کو غیرقانونی قرار دیا گیا۔