Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملالہ کی نئی کتاب نے اشاعت سے پہلے ہی تہلکہ کیوں مچا دیا؟: عامر خاکوانی کا کالم

ملالہ کے بقول انھوں نے اپنی نئی کتاب اپنے والدین کو ابھی تک نہیں پڑھائی: فوٹو پیپلز میگزین
میرا یہ ویک اینڈ ایک ایسی کتاب کے  مطالعے میں گزرا جو ابھی شائع نہیں ہوئی۔ ذکر نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی نئی کتاب ’فائنڈنگ مائی ویز‘ کا ہے۔
یہ ان کی سوانح حیات کا دوسرا حصہ(سیکوئل) ہے۔ بائیو گرافی کا پہلا حصہ چند برس قبل ’آئی ایم ملالہ‘کے نام سے آیا اور اسے خاصی پزیرائی ملی۔ 
ملالہ یوسفزئی کی نئی کتاب کل یعنی منگل کے روز (اکیس اکتوبر) کومارکیٹ میں آ رہی ہے تاہم اس کے پری آرڈرز ہزاروں کی تعداد میں بک ہو چکے ہیں، اسے ادبی ناقدین پہلے ہی سے بیسٹ سیلر قرار دے رہے ہیں۔ 
اس کتاب کے کچھ اقتباسات (پبلشر کی اجازت سے) بعض اشاعتی اداروں (گارڈین، ووگ، پیپلزمیگزین وغیرہ)نے شائع کیے ہیں۔
ملالہ کے بعض تفصیلی انٹرویوز بھی اسی حوالے سے شائع ہوئے اور ملالہ کا چار سال قبل برٹش ووگ کے لیے تہلکہ خیز انٹرویو کرنے والی خاتون صحافی سیرن کیل (کیلے) کا ملالہ سے گفتگو کرنے کے بعد گارڈین میں لکھا گیا طویل مگر دلچسپ مضمون بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ 
خاکسار نے عالمی میڈیا میں اس حوالے سے چھپنے والے ایک ایک لفظ کوپڑھنے کی کوشش کی۔ میرے لیے منگل تک کتاب کی آمد کا انتظار مشکل تھا۔
اس کتاب کے جو چپیٹرز شائع ہوئے ہیں اور جن طویل اقتباسات کو پڑھنے کا موقعہ ملا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ واقعی بہت دلچسپ اور ذاتی احساسات کو بیان کرتی دلچسپ بائیوگرافی ہوگی۔
مجھے لگ رہا ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے سے ملالہ یوسفزئی کے بارے میں عوامی امیج بہتر ہوگا، پاکستان میں ملالہ کے ناقدین حلقے بھی شائد اپنی سوچ میں نرمی لے آئیں۔ 
ملالہ یوسفزئی کی اس نئی کتاب، اس کی پچھلی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ اور اس سے بھی پہلے بی بی سی کے لیے لکھی گئی ملالہ کی ڈائری جو گل مکئی کے نام سے شائع ہوئی، ان سب میں ایک بات مشترک ہے، وہ ملالہ کا سادہ اور بے ساختہ اظہار خیال ہے۔ وہ ایک سمجھدار اور بعض حوالوں سے اپنی عمر سے زیادہ میچور خاتون بن چکی، مگر اس کے اندر ایک خاص قسم کی معصومیت ہے اور اپنی آرا وہ صاف گوئی سے بیان کر دیتی ہے۔ 

 کتاب میں ملالہ یوسفزئی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اکثر آن لائن تنقید کا نشانہ بنتی ہیں، کچھ لوگ انہیں مغرب نواز کہتے ہیں: فوٹو اے ایف پی 

ملالہ یوسفزئی نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اکنامکس، فلسفہ اور پولیٹیکل سائنس کے مرکزی مضامین کے ساتھ گریجوایشن کی ہے۔ اس نےکتاب میں ایک ناخوشگوار واقعے  کا ذکر کیا جس نے اسے شدید جسمانی ،ذہنی تکلیف اور کوفت کا شکار کر دیا۔
ایک حیران کن واقعہ یہ ہوا کہ اسے نیم بے ہوشی کے عالم میں برسوں پہلے گولی لگنے کا واقعہ پوری صراحت سے یاد آ گیا، گولی لگنا، ہر طرف خون کے چھینٹے اور پھر ملٹری ہسپتال کی ایمرجنسی، منہ میں ڈالی گئی ٹیوب وغیرہ۔
حالانکہ گولی لگنے کے بعد جب اسے ہوش آیا تو کچھ یاد نہیں تھا، ذہن سے سب ڈیلیٹ ہو چکا تھا۔ کئی برسوں سے اس کے ذہن میں گولی لگنے کے وقت کی کوئی یاد نہیں تھی، مگر اس واقعے میں اس کے تحت الشعور میں دبی یادیں ابھر کر آ گئیں اور پھر برسوں تک اسے شدید ٹینشن، سردرد اور ڈپریشن میں مبتلا رکھا۔
ملالہ یوسفزئی لکھتی ہیں کہ’میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ میں وہ دن بھول چکی ہوں، لیکن اُس لمحے میں نے سب دوبارہ جیا۔ لگا جیسے میں مر چکی ہوں  یا مر رہی ہوں۔‘
اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے ملالہ نے صاف گوئی سے بتایا کہ وہ ایک اسائنمنٹ کر رہی تھی، ایک پیرا گراف بار بار پڑھنے کے باوجود نہیں سمجھ آیا، وہ شدید بیزار بیٹھی تھی کہ ان کی سہیلی کا فون آیا اور وہ ہاسٹل کے کمرے سے نکل کر اس جگہ دوستوں کے پاس چلی گئی۔ ملالہ نے چند سطروں کا وہ فلسفیانہ پیراگراف نقل بھی کر دیا۔ 
سچی بات ہے کہ وہ پیراگراف دو تین بار پڑھنے کے بعد بھی کچھ سمجھ نہیں آیا۔ مجھے بے ساختہ  اپنے کالج، یونیورسٹی کا دور یاد آیا جب مشکل اسائنمنٹس کیسے بیزار اور چڑچڑا کر دیتی تھیں اور تب کسی دوست کے بلانے پر ہم بھی باہر چلے جاتے کہ چلو کچھ گپ شپ اور کھا پی کر ذہن فریش کریں، پھر شائد سمجھ آ جائے۔یہ اور بات کہ پھر بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ 
ملالہ یوسفزئی نے ایک چیپٹر میں آکسفورڈ میں گزرے ایام کا تفصیل سے ذکر کیا، اس حوالے سے بتایا کہ کس طرح اس نے کوشش کر کے آکسفورڈ میں لو پروفائل رہنے کی کوشش کی۔ ملالہ کی تحریر سے اندازہ ہوا کہ جنہیں ہم سیلبریٹی سمجھتے ہیں، ان کی زندگیاں کس قدر مشکل اور کٹھن ہو جاتی ہیں۔ ملالہ نے تاسف سے بتایا کہ وہ بولنے سے پہلے دو بار سوچتی ہے کیونکہ اس کی زبان سے نکلا ہر جملہ کوئی بیان یا کوٹیشن بن جاتا ہے۔ 

کتاب کے مطابق ایک حیران کن واقعہ یہ ہوا کہ انھیں نیم بے ہوشی کے عالم میں برسوں پہلے گولی لگنے کا واقعہ پوری صراحت سے یاد آ گیا: فوٹو اے ایف پی

آکسفورڈ میں البتہ ملالہ کی کئی سہلیاں بن گئیں جن کے ساتھ اس نے بہت اچھا اور ٹینشن فری وقت گزارا۔ گھنٹوں گپیں لگائیں، واک، ہنسی مذاق اور وہ سب کچھ جو ایک ٹین ایجر لڑکی اپنی ہم جولیوں ، سہیلیوں کے ساتھ کر سکتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ دوستوں کے ساتھ بولتے ہوئے مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ میں بک بک کر سکتی تھی، کچھ غلط ، غیر منطقی بولنا، مذاق ، دوستانہ جملے بازی وغیرہ وغیرہ۔ 
ملالہ نے برطانوی صحافی خاتون سیرین کیل  کو بتایا کہ ’کم عمری میں شہرت پانے کا ان کی زندگی پر بہت گہرا اثر ہوا۔ وہ ایوارڈ تقریبات میں جاتیں، جہاں ایسے لوگ ملتے جنہوں نے اپنی زندگیاں سماجی خدمت میں وقف کر دی تھیں۔ ملالہ سوچتی کہ مجھے خود کو نوبیل انعام کا حقدار ثابت کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوچ اس کا ہمیشہ پیچھا کرتی رہی۔ پھر زندگی کے تلخ سفاک حقائق نے بھی اس نوجوان پشتون لڑکی کو مایوسی سے دوچار کیا۔‘
ملالہ یوسفزئی کے مطابق ’میں بڑی ہو رہی تھی، اور مجھے احساس ہو رہا تھا کہ دنیا اتنی سیدھی نہیں جتنی میں سمجھتی تھی۔ چیزیں کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔‘ملالہ کے مطابق وہ وقت گزرنے کےساتھ مایوس ہوتی گئی۔ 
ملالہ کو افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں آمد نے شدید دھچکا پہنچایا، خاص کر جب انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی۔ ملالہ نے تاسف سے کہا کہ عالمی لیڈروں نے افغان خواتین کو بھلا دیا، ان خواتین سے زیادہ طالبان پر بھروسہ کیا۔
ملالہ یوسفزئی نے امریکی صدر بائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر میکرون اور کینیڈا کے صدر جسٹس ٹروڈو کو باربار میلز بھیجیں، فون کیے۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان افغانوں کو افغانستان  سے نکالا جائے جو خواتین کی تعلیم سے  متعلق کام کرتے رہے۔
ملالہ کے مطابق میں برسوں سے ان عالمی رہنماؤں کے ساتھ تصاویر کھنچواتی رہی، ہاتھ ملاتی رہی مگر جب ضرورت تھی تو کسی نے فون نہیں اٹھایا، ای میلز کا جواب تک نہیں دیا۔ ملالہ کو افسوس ہے کہ افغانستان آج بھی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔
ملالہ نے غزہ کے مظلوم شہریوں کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ میں نے ان کے لیے بار بار آواز اٹھائی ،ملالہ اسرائیلی مظالم کو نسل کشی قرار دیتی ہے، ان کے بقول ملالہ فنڈ نے غزہ میں تعلیم کے لئے لاکھوں پونڈ کے عطیہ جات دئیے۔ وہ مصر میں زخمی فلسطینی بچوں سے بھی ملیں اور ان کے لئے ایک لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 
ملالہ یوسفزئی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اکثر آن لائن تنقید کا نشانہ بنتی ہیں، کچھ لوگ انہیں مغرب نواز کہتے ہیں، کچھ انہیں مغربی اداروں کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ملالہ یوسفزئی پاکستان کے حوالے سے حساس ہیں اور وہ کہتی ہیں ’پاکستان میرا حصہ ہے۔ جب کوئی کہتا ہے کہ پاکستان مجھ سے نفرت کرتا ہے تو میں فوراً دفاعی ہو جاتی ہوں۔ میں کہتی ہوں: نہیں، پاکستان مجھ سے محبت کرتا ہے۔پھر بھی وہ مانتی ہیں کہ کچھ مخالفت ہمیشہ سے رہی ہے۔ یہ تنقید اصل میں مجھ پر نہیں، بلکہ مغرب کے بیانیے پر ہوتی ہے۔ میں صرف اس کے ساتھ جُڑی ہوئی ہوں۔‘

کتاب کا ایک بہت خوبصورت حصہ ان کے خاوند عصر ملک کے حوالے سے ہے۔ یہ ابواب بڑے دلکش اور دل کو چھو لینے والے ہیں: فوٹو اے ایف پی 

کتاب کا ایک بہت خوبصورت حصہ ان کے خاوند عصر ملک کے حوالے سے ہے۔ یہ ابواب بڑے دلکش اور دل کو چھو لینے والے ہیں۔ افسوس کہ کالم کی طوالت کے خوف سے میں وہ زیادہ نقل نہیں کر سکتا۔ عصر ملک ایچیسن کالج لاہوراور لمز یونیورسٹی سے پڑھے ہیں، وہ کرکٹ سے دلچسپی رکھتے اور پہلے پی ایس ایل فرنچائز ملتان سلطان اور پھر پاکستان کرکٹ بورڈ سے جنرل مینجر کے طور پر منسلک رہے۔
آکسفورڈ میں اپنی تیسری ٹرم میں ملالہ کی عصر ملک سے ملاقات ہوئی جو لاہور سے آکسفورڈ کسی عزیزہ سے ملنے آئے۔ دراز قد لاہوری عصر ملک اور ملالہ دونوں فوراً ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔ 
ملالہ کی اس حوالے سے یادیں بہت خوبصورت، معصومانہ اور پیور قسم کی ہیں۔ وہ اپنی تمام ترخوداعتمادی، ایکسپوژر اور عالمی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود اس حوالے سے ایک سادہ معصوم مشرقی لڑکی نظر آئی۔
جسے اپنی پشتون روایات کا خیال ہے، جو ایک پڑھے لکھے ہینڈسم لڑکے کو پسند کرنے کے باوجود شادی کے لیے اپنے والدین کی رضامندی چاہتی ہے۔ لڑکے کو صاف کہہ دیتی ہے کہ پہلے میرے والدین کو منانا پڑے گا۔ جو اپنے شفیق اور دوست نما والد سے ایک غیر ملکی سفر پر یہ سیکرٹ شیئر کرتی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ ماں کو نہ بتائیں۔
ان کے والد ضیا الدین یوسف زئی نے پوری توجہ اور غور سے بات سنی، مگر ملالہ ہکا بکا رہ گئی جب انہوں نے  فوراً اپنی بیگم کو فون کر کے بتا دیا جنہوں نے فون پر ہی چیخ کر کہا کہ اگر اس لڑکے کو پشتو بولنا نہیں آتی تو ملالہ اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتی۔ ملالہ نے اپنے والدین کے احترام کو ملحوظ رکھا اور پشتو کلچرل کوڈ ’نو لُک، نو ٹچ، نو ڈیٹ‘کو فالو کرنے  کی کوشش کی۔
ملالہ اپنے خاوند عصر ملک کی سمجھداری، محبت ، برداشت اور میچورٹی کی تعریف کرتی ہے جو اسے لندن سے لاہور جانے کے بعد بھی کئی مہینوں تک ہر روز فون کیا کرتا تھا، گھنٹوں گپ شپ کرتا، اس کی ٹینشن، پریشانیاں شیئر کرتا، مشورے دیتا۔

ملالہ یوسفزئی کی نئی کتاب21 اکتوبرکومارکیٹ میں آ رہی ہے: فوٹو اے ایف پی

عصر ملک نے ملالہ کے کہنے پر اپنے رشتے کو مخفی رکھا، میڈیا میں کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دی۔ اس نے آکسفورڈ سے ملالہ کی گریجویشن مکمل ہونے کا انتظار کیا اور پھر تین سال کے محبت بھرے تعلق کے بعد 2021 میں دونوں کی شادی ہوئی۔ 
ملالہ نے خوشی سے بتایا کہ پچھلے چار برس اس کے لیے ایک متواتر اور طویل ہنی مون جیسے ہیں۔ تاہم اس نے معصومیت سے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس کی والدہ جب ان کے گھر آتی تو ناراض ہوتی ہیں کہ تمہارا فریج سبزیوں گوشت وغیرہ سے خالی ہے اور تم کھانا گھر پکانے کے بجائے ہر روز باہر سے کیوں منگواتی ہو۔ ملالہ کے نزدیک اس کی زندگی کا بہترین ویلنٹائن اس کے سپورٹس لور خاوند کے ساتھ 14 فروری کو ایک رگبی میچ دیکھنا ہے۔ 
ملالہ کے بقول انھوں نے یہ کتاب اپنے والدین کو ابھی تک نہیں پڑھائی۔ انہیں کہا ہے کہ کتاب شائع ہو جائے پھر آپ اسے پڑھنا، چونکہ تب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔  ملالہ کی نئی کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جس پر بات ہوسکے، جسے شیئر کیا جا سکے ۔ توقع کرنی چاہیے کہ انگریزی کتاب شائع ہونے کے بعد اس کا اردو ترجمہ بھی آئے گا

شیئر: