آج کے کالم میں پہلے ایک فرضی منظرنامہ پیش کرتا ہوں۔ فرض کریں کہ مئی میں پاکستان، انڈیا جنگ کے موقع پر انڈین میزائل مریدکے، بہاولپور، مظفرآباد وغیرہ میں گرے اور درجنوں پاکستانی جانیں چلی گئیں، اور پھر ایک بڑی اور شدید جنگ چھڑ گئی۔
ایسے میں اگر سابق وزیراعظم عمران خان کے ٹوئٹر ہینڈل سے یہ پیغام جاری ہوتا کہ ’ملک اس وقت حالتِ جنگ میں ہے، دشمن نے پاکستان پر حملہ کیا ہے، اس لیے ہم اپنی سیاسی سرگرمیاں فوری طور پر روک رہے ہیں۔ ہمارے اس حکومت کے ساتھ شدید اختلافات ہیں، ہم انہیں قانونی طور پر جائز حکومت نہیں مانتے، مگر اس بحرانی معاملے میں یہ سب باتیں ایک طرف ہیں۔ سیاست بعد میں کریں گے۔ اس وقت ہم اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستانی قوم دشمن کے مقابلے میں متحد ہے، یہ سیسہ پلائی دیوار بنے گی۔ میرے انصافین، میرے ٹائیگرز، وطن کی حفاظت کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ اپنی فوج کے دست و بازو بنو، دشمنوں کا دلیرانہ مقابلہ کرو، وطن کے لیے ہماری جانیں حاضر ہیں، ہمارا لہو حاضر ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
کیا ہم مشین بن چکے ہیں؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 895470
فرض کریں یہ پیغام عمران خان نے ٹویٹ کیا ہوتا، پی ٹی آئی کے رہنما اسے اپنی پریس کانفرنسز میں بار بار دہراتے، سوشل میڈیا پر انصافین ایکٹوِسٹس اور کی بورڈ واریئرز انہی خطوط پر لگاتار پوسٹس کرتے، تحریریں لکھتے اور بھرپور انداز میں اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کرتے۔
آپ کے خیال میں اس کا کیا اثر ہوتا؟ میرے خیال میں تب یہ جنگ نہ صرف پاکستانی فوج جیتتی بلکہ عمران خان بھی اس کے ساتھ جیت جاتے۔ ایسا مثبت، اصولی اور شاندار موقف لینے سے تحریکِ انصاف اور عمران خان کو غیرمعمولی مورل سپورٹ ملتی۔ ہر طرف ان کی تعریف ہوتی، مختلف اہم شعبوں اور مقامات پر ان کے حمایتی حلقے اور لابیز مضبوط ہوتے۔ 90 سے 95 فیصد امکانات تھے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد عمران خان کے لیے مقتدر حلقوں میں بھی نرم گوشہ پیدا ہوتا، ان کی مشکلات میں کچھ کمی آتی اور ممکن تھا کہ دروازہ کھلتا جس سے تازہ ہوا آتی، شاید کوئی کرشمہ بھی تخلیق ہو جاتا۔
اصل سوال یہ ہے کہ اگر یہ موقف اپنایا جاتا تو نقصان کیا ہوتا؟ میرے نزدیک کچھ بھی نہ تھا۔ تحریکِ انصاف ویسے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے، مزید کیا ہوتا؟ فوائد بہت تھے۔ یہ بھی امکان تھا کہ سب کچھ بدل جائے۔ اور اگر کچھ نہ بھی ہوتا تو کم از کم تصور کریں کہ اگر تحریکِ انصاف ایسا کرتی تو مسلم لیگ ن پر کیا قیامت گزر جاتی، فقط تصور کر کے دیکھیں۔
ان سطور کے راقم، خاکسار نے انہی دنوں یہ بات بار بار لکھی، کئی جگہوں پر یہ پیغام بھیجا اور مختلف پرو تحریکِ انصاف واٹس ایپ گروپس میں بھی یہ خیال پہنچایا۔ جواب میں بے شمار طعنے سنے۔ افسوس کہ تحریکِ انصاف کی قیادت اس اہم ترین موقع کو سمجھنے میں ناکام رہی اور ایک بڑا اقدام وہ لے سکتے تھے مگر نہ لے پائے۔

یہ کہنا غلط ہوگا کہ تحریکِ انصاف کا رویہ پاکستان، انڈیا جنگ میں ملک دشمنانہ تھا، ایسا میں ہرگز نہیں کہہ رہا۔ جب پاکستان نے انڈیا کو جواب دیا تو تحریکِ انصاف کے لوگوں نے بہت سی پوسٹیں کیں اور سوشل میڈیا پر رنگ جما دیا، مگر یہ سب دیر سے ہوا، بعد از وقت تھا۔ جب انہیں ایسا کرنا چاہیے تھا تب انہوں نے نہیں کیا۔
جب پاکستان نے جواب دے دیا اور دنیا نے بھی پاکستان کی برتری مان لی، تو ہر ایک نے حمایت کرنی تھی، مگر تحریکِ انصاف کو اس حمایت سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہ ملا۔
آج پھر قدرت نے تحریکِ انصاف کو وہ سنہری موقع فراہم کر دیا ہے۔
تحریکِ انصاف خیبر پختونخواہ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی چاہتی ہے۔ علی امین گنڈاپور مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان کی جگہ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ کے لیے نامزد کیا گیا۔ سہیل آفریدی پہلی بار ایم پی اے بنے ہیں، انہیں کوئی انتظامی تجربہ حاصل نہیں وہ پہلے انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے لیڈر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سہیل آفریدی تحریکِ انصاف کے روپوش لیڈر مراد سعید کے شاگردِ خاص اور قریبی ہیں۔ انہیں غالباً اس لیے نامزد کیا گیا کہ وہ ہارڈ لائنر اور عمران خان کے وفادار ہیں اور اس حوالے سے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وہ کمپرومائزڈ نہیں اور ایجیٹیشن کی سخت گیر پالیسی چلا سکتے ہیں، جو ایک طالباتی لیڈر میں فطری طور پر پائی جاتی ہیں۔
تاہم چند روز پہلے صورتحال مختلف تھی۔ سنیچر اور اتوار کے درمیانی شب افغانستان کی جانب سے پاکستان پر حملے نے سب کچھ بدل دیا۔ افغانستان نے پاک، افغان بارڈر کے متعدد مقامات پر شدید حملے کیے، گولہ باری اور فائرنگ کی اور پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔ یہ زیادہ تر مقامات پختونخواہ میں ہیں۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا، افغان حملہ آور پسپا ہوئے، ان کی چوکیوں کو تباہ کیا گیا، کئی چوکیوں پر پاکستانی فورسز کا قبضہ ہوا اور وہاں پاکستانی جھنڈے لہرا دیے گئے۔

یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صورتِ حال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔ ایک روز قبل ڈی آئی خان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے ایک بڑا حملہ کیا، وہ سب مارے گئے مگر کئی پولیس اہلکار شہید بھی ہوئے۔ امکانات ہیں کہ افغان فوجیوں کے حملے کو ناکام بنانے اور پسپا کرنے کے بعد اگلا وار ٹی ٹی پی کے ذریعے ہوگا۔ محاذِ جنگ پختونخوا کے مختلف علاقے ہی بنیں گے: ڈی آئی خان، بنوں، کوہاٹ، پشاور کے علاوہ وزیرستان، باجوڑ وغیرہ میں دہشت گردی کی نئی لہر متوقع ہے۔ ایسے میں بہت ضروری ہے کہ صوبائی حکومت فورسز کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرے۔
عمران خان کا افغانستان کے حوالے سے پاکستانی خارجہ پالیسی سے اختلاف ہے، اور ٹی ٹی پی کے ساتھ ڈیلنگ کے طریقہ کار پر بھی انہیں تحفظات ہیں۔ خان صاحب کو لگتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے یہ مسائل حل ہونے چاہئیں۔ یہ بات چند دن پہلے تک کسی حد تک درست بھی تھی۔ لیکن جب کھلی جنگ چھڑ جائے، جب دشمن آپ کے گھر پر حملہ آور ہو، تب مذاکرات کی بات نہیں کی جاتی، جواب منہ توڑ دیا جاتا ہے۔ جب آپ کے جوان، افسر مسلسل جانیں دے رہے ہوں اور انتظامی رٹ کو نشانہ بنا کر مفلوج کیا جا رہا ہو، تو حکمتِ عملی بدلنی پڑتی ہے۔
تحریکِ انصاف اور عمران خان کو یہ سب باتیں سمجھنی چاہییں۔ یہ وقت پختونخواہ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لیے مناسب نہیں۔ سہیل آفریدی اچھے امیدوار ہیں یا نہیں، اس سے قطع نظر اس وقت انہیں لانا مناسب نہیں۔ اس وقت کسی تجربہ کار شخص کی ضرورت ہے جو اداروں سے ٹکراؤ کی بجائے ان کا ساتھ دے، سپورٹ کرے اور سمجھے کہ حالتِ جنگ کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔

اگر تحریکِ انصاف اور ان کے قائد دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور اعلان کر دیں کہ چونکہ ملک حالتِ جنگ میں ہے، اس لیے ہم اس وقت صوبے میں سیاسی تبدیلی کے عمل کو مؤخر کر دیتے ہیں، مثلاً تین ماہ کے لیے تو بہتر ہوگا۔
جنوری 2026 میں اسے پھر دیکھا جائے۔ تب تک علی امین گنڈاپور کو عارضی طور پر کام جاری رکھنے کو کہا جا سکتا ہے۔ گنڈاپور صاحب نے خوشدلی سے استعفیٰ دیا تھا اور انہوں نے تحریکِ انصاف کے خلاف پالیسی اختیار نہیں کی۔ ان پر کچھ عرصے کے لیے بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی علی امین گنڈاپور کے لیے وجہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی سیاسی حمایت کے بغیر وہ ڈی آئی خان سے یقینی طور پر الیکشن نہیں جیت سکتے، خاص کر جب مقابلہ مولانا فضل الرحمن جیسے طاقتور حریف سے ہو۔
تحریکِ انصاف کے پاس ایک اور آپشن یہ بھی ہے کہ سہیل آفریدی کی جگہ کسی غیرمتنازع اور تجربہ کار شخص کا نام پیش کیا جائے۔ ان کے پاس متعدد آپشنز موجود ہیں۔ بہرحال بہتر یہی ہے کہ پختونخوا اسمبلی میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا عمل فی الحال روکا جائے۔ یہ حالتِ جنگ ہے اور اس کا صوبائی حکومت سے گہرا اور براہِ راست تعلق ہے، حتیٰ کہ وفاقی حکومت سے بھی زیادہ۔
چند ماہ قبل تحریکِ انصاف نے ایک بڑا موقع ضائع کر دیا۔ پاکستان، انڈیا کشیدگی اور جنگ جیسی صورتحال میں انہیں مثبت اور بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ ریاستِ پاکستان کے ساتھ غیر مشروط طور پر کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ اب پھر انہیں ایک موقع ملا ہے۔ عمران خان اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک مضبوط، واضح اور غیرمبہم اظہارِ یکجہتی جاری کریں۔ ملک کے خاطر وقتی طور پر اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر اداروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا جائے۔ اپنے کارکنان اور حامیوں سے کہا جائے کہ وہ ملک دشمن پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیں۔ جو حلقے ملک میں پشتون، پنجابی تقسیم پھیلانا چاہتے ہیں، تحریکِ انصاف اسے ناکام بنا سکتی ہے کیونکہ وہ پختونخوا اور پنجاب دونوں جگہوں پر سب سے بڑی اور مقبول عوامی جماعت ہے۔

یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے؛ بس اس کے لیے انہیں اپنے چند ضرورت سے زیادہ جارحانہ حامیوں کو روکنا ہوگا (مثلاً ان کی بعض نامور اور متحرک شخصیات کو قابو میں رکھنا)، اور فورسز مخالف جارحانہ بیانیہ بند کرانا ہوگا۔
اگر تحریکِ انصاف اور عمران خان اس موقع کو پہچان لیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں تو انہیں غیرمعمولی ثمرات اور فوائد مل سکتے ہیں۔ نقصان بالکل بھی نہیں، فوائد بہت سے متوقع ہیں۔ وہ اپنی بنیاد وسیع کر سکتے ہیں، اپنے حامیوں کو ستائش کا ایک زبردست موقع دے سکتے ہیں، اپنے سیاسی مخالفین کو حیران و ششدر کر سکتے ہیں اور اہم حلقوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے کے لیے مضبوط دلیل فراہم کر سکتے ہیں۔
ملین ڈالر سوال یہی ہے: کیا تحریکِ انصاف اس اہم موقع کو پہچان اور سمجھ پائے گی؟
اس وقت تک جو کچھ سوشل میڈیا پر انصافین کر رہے ہیں وہ اس کے برعکس محسوس ہوتا ہے۔ تاہم امید رکھنا بے محل نہیں۔ کاش ایسا ہو پائے اور اس سے ملک میں سیاسی تقسیم کم ہو۔