Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی ماہر ارضیات جس نے تیل کی دریافت میں گہرے نقوش چھوڑے

’وہ آرامکو کمپنی کے سابق صدر، چیف ایگزیکٹو افسر اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین رہے‘ ( فوٹو: سبق)
سعودی آرامکو میں ایسے بے شمار نام ہیں جنہوں نے تیل کی دریافت اور پیداوار کی تاریخ کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے اور سخت محنت و لگن کا ایک لازوال ورثہ چھوڑا ہے۔
ان نمایاں ناموں میں سے ایک نام  امریکی ماہر ارضیات ٹوم بارگر کا بھی ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق وہ آرامکو کمپنی کے سابق صدر، چیف ایگزیکٹو افسر اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین رہے۔
وہ 1937ء میں سعودی عرب آئے تاکہ وسیع خطے میں جیولوجیکل سروئیر کے طور پر کام کر سکیں اور بعد ازاں ان بانی رہنماؤں میں شامل ہوئے جنہوں نے ابھرتے ہوئے ملک کے حیرت انگیز سفر کی سمت متعین کرنے میں مدد دی۔
نامعلوم کی جانب سفر
بارگر کی کہانی اُس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے شمالی ڈکوٹا یونیورسٹی سے گریجویشن کئے 6 سال گزار چکے تھے۔
اس وقت عظیم کساد بازاری کے اثرات امریکی معیشت کو مفلوج کر چکے تھے اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔
انہوں نے کینیڈا میں کان کنی کے شعبے میں کام کیا، پھر اپنی یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دیں۔
اسی دوران انہیں استانڈرڈ آئل آف کیلیفورنیا سے سعودی عرب میں سروے ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی پیشکش ملی۔
انٹرویو کے صرف پانچ ہفتے بعد وہ الخبر پہنچے جہاں سے ان کا عملی سفر شروع ہوا جو انہیں جیولوجسٹ جیری ہیرس کے ہمراہ ربع الخالی کے گہرے ریگستانوں تک لے گیا، ایک ایسی سرزمین جہاں اس سے پہلے کوئی مغربی شخص قدم نہیں رکھ سکا تھا۔
ان مہمات کے دوران انہوں نے ایسے چٹانی ٹیلے دریافت کئے جنہوں نے تیل کے وسیع ذخائر کی موجودگی کی نوید دی، وہ ذخائر جو بعد میں سعودی عرب کے لیے حیات کا شریان ثابت ہوئے۔
انوکھی شراکت
بارگر کے ساتھ ان مہمات میں خمیس بن رمثان شریک تھے، جنہیں صحرا میں راستوں کی خبر تھی اور جنہیں دلیل اور رہنما کہا جاتا تھا۔
بارگر ایک یاد کا ذکر کرتے ہیں جب خمیس نے شمالی ستارے کی پوزیشن میں تبدیلی نوٹ کی۔
سالوں بعد بارگر کو احساس ہوا کہ خمیس کا مشاہدہ سائنسی لحاظ سے بالکل درست تھا کیونکہ وہ سینکڑوں میل جنوب کی سمت بڑھ چکے تھے، جس سے ستارے کا زاویہ بدل گیا تھا، یہ خمیس کی غیرمعمولی ذہانت اور رہنمائی کی مہارت کی علامت تھی۔
نئے معاشرے کی پیدائش
بارگر نے کیتھلین رے سے 1937 میں شادی کی اور صرف تین ہفتے بعد وہ سعودی  کے سفر پر روانہ ہو گئے۔
1940ء اور 1943ء میں دو مختصر دوروں کے بعد، کیتھلین 1945ء میں ان کے پاس ظهران آگئیں، جہاں انہوں نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔
یہ وہ ماحول تھا جو روایت اور جدیدیت کے حسین امتزاج سے بنا تھا۔
یہاں ان کے 6 بچے ہوئے اور وہ ایک ایسے امریکی طرز کے سماج میں رہے جہاں اسکول موجود تھے جبکہ اردگرد پھیلا صحرا ان کے لیے گویا ایک پچھواڑہ باغ تھا۔
دائمی ورثہ
صحرا میں تیل کی تلاش اور خمیس بن رمثان کے ساتھ قریبی تعلقات کے ذریعے بارگر نے عربی زبان سیکھی اور بدوی ثقافت کی گہری سمجھ حاصل کی۔ یہی فہم انہیں سعودی قائدین اور مقامی برادریوں کے ساتھ پائیدار رشتے بنانے میں مددگار ثابت ہوئی۔
1940ء میں جب وہ محکمہ سرکاری تعلقات میں گئے تو ان کی سفارتی صلاحیتیں نمایاں ہوئیں۔
انہیں 1958ء میں نائب صدر برائے حکومتی تعلقات، 1959ء میں آرامکو کے صدر، 1961ء میں چیف ایگزیکٹو آفیسر اور 1968ء میں چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز مقرر کیا گیا اور ایک سال بعد وہ سبکدوش ہوگئے۔
ٹوم بارگر اُن افراد میں سے تھے جنہوں نے سعودی تیل کی تاریخ پر اپنی گہری چھاپ چھوڑی اور ان لوگوں میں شامل ہوئے جنہوں نے تیل کی دریافت کی مہم کو ایک ایسی عالمی کامیابی کی داستان میں بدلا جو سعودی عرب کے ریگستانوں سے شروع ہوئی۔

شیئر: