فلیوینولز دماغ میں ایک سلسلہ وار عمل کو متحرک کرتے ہیں جو دماغ کے اندرونی ’انتباہی نظام‘ کو جگا دیتے ہیں (فوٹو: پکسابے)
جاپان میں ہونے والی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈارک چاکلیٹ دماغ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق جاپان میں ’کرنٹ ریسرچ ان فوڈ سائنس‘ نامی جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈارک چاکلیٹ میں موجود مرکبات، جنہیں ’فلیوینولز‘ کہا جاتا ہے، وقتی طور پر یادداشت اور دماغ کو تیز کر سکتے ہیں۔ یہی مرکبات اس کے کڑوے ذائقے کا باعث بنتے ہیں۔
اس سے قبل ہونے والی تحقیق میں یہ تو معلوم ہوا تھا کہ فلیوینولز سے بھرپور غذائیں یادداشت بہتر بناتی ہیں، مگر اس نئی تحقیق نے واضح طور پر بتایا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
تجربے کے دوران چوہوں کو کوئی عمل سکھانے سے پہلے فلیوینولز دیے گئے جس سے ان کی یادداشت میں 30 فیصد بہتری دیکھی گئی۔ یہ اثر تقریباً ایک گھنٹے تک برقرار رہا جس دوران دماغ کا یادداشت سے متعلق حصہ، جسے ہپوکیمپس کہا جاتا ہے، فعال ہو جاتا ہے۔
فلیوینولز دماغ میں ایک سلسلہ وار عمل کو متحرک کرتے ہیں جو دماغ کے اندرونی ’انتباہی نظام‘ کو جگا دیتے ہیں۔
یہ اثر تقریباً ایک گھنٹے کے اندر ظاہر ہوا۔ فلیوینولز نے دماغ کے ایک حصے ’لوکس کوریولیس‘ کو متحرک کیا، جو دماغ کے الارم سسٹم کی طرح کام کرتا ہے۔ اس کے بعد دماغ میں نورایڈرینالین نامی کیمیکل خارج ہوا، جو توجہ بڑھاتا ہے اور یادداشت کے ذخیرے میں مدد دیتا ہے۔
یہ ایک وقتی یادداشت میں اضافہ ہے، ڈارک چاکلیٹ کا کڑوا ذائقہ وقتی طور پر دماغ کو جگاتا ہے، جس سے آپ زیادہ چوکس اور چیزیں یاد رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
طویل مدتی یادداشت، یعنی بہتر ذخیرہ اور یاددہانی کے لیے، ڈارک چاکلیٹ کی مقدار کافی نہیں (فوٹو: پیکسلز)
البتہ یہ نتائج انسانوں پر مکمل طور پر لاگو نہیں کیے جا سکتے، کیونکہ چوہوں کو فلیوینولز کی وہ مقدار دی گئی تھی جو عام ڈارک چاکلیٹ کھانے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔
مزید یہ کہ اس سے ملنے والا یہ فائدہ عارضی ہے جس کا دورانیہ تقریباً ایک گھنٹہ تک ہے۔ تاہم پڑھائی یا ذہنی معاملات کے وقت ڈارک چاکلیٹ کھانا مددگار ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ دماغ کے الارم سسٹم کو بہتر کر کے توجہ بڑھاتا ہے۔
طویل مدتی یادداشت، یعنی بہتر ذخیرہ اور یاددہانی کے لیے، ڈارک چاکلیٹ کی مقدار کافی نہیں، مگر اس میں موجود فلیوینولز یقینی طور پر انسان کی توجہ کو بہتر بناتے ہیں۔